ہم زخم زخم ہیں

لاہور میں گلشن اقبال پارک میں خود کش حملہ ہوا اور ننھی معصوم کلیوں اور ان کے والدین کو خون میں لت پت کر گیا.ہمیشہ کی طرح ہم اب بھی مرنے والوں اور زخمیوں کی اصل تعداد معلوم کر کے سب سے پہلے ایک دوسرے کو باخبر رکھنا چاہ رہے ہیں.یہ خود کش دھماکہ ایسٹر کے تہوار کے موقع پر ہوا اور ظاہر ہے اس کی ایک سمبالک حیثیت ہے.گو بم یا بارود مرنے والوں سے ان کا مذہب یا رنگ و نسل تو نہیں پوچھتے لیکن پھر بھی جاں بحق اور زخمی افراد کے بارے میں شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ زیادہ تر مسیحی برادری سے تعلق رکھتے تھے.

دوسری جانب وفاقی دارلحکومت کو ممتاز قادری کے چہلم پر آئے ہوئے افراد نے ہائی جیک کیا پہلے اسلام آباد کی سڑکیں اور گلیاں پولیس اور ممتاز قادری کے چاہنے والوں کے درمیان میدان جنگ کا منظر پیش کرتی رہیں اور پھر بالآخر ناموس رسالت کے تحفظ کے دعویداروں نے اپنے ہی وطن کی پارلیمنٹ پر چڑھائی کر دی.ریڈ زون کی حفاظت کیلئے بالآخر فوج کو طلب کرنا پڑا اور یقینا فوجی دستوں کو دیکھتے ہی سارے مشتعل افراد کا اشتعال صابن کی طرح بیٹھ گیا. ایک جانب لاہور میں قیامت صغری کا عالم تھا لوگ ہسپتالوں میں اپنے لواحقین کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے تھے.اور دوسری جانب دارلحکومت اسلام آباد میں شدت پسند لشکروں نے چڑھائی کی ہوئی تھی. سمجھ نہیں آ رہا تھا لاہور کے سانحے کا سوگ منائیں یا پھر اسلام آباد میں لشکر کی چڑھائی کا.

بم دھماکوں کی تو خیر ہمیں عادت ہو گئی ہے اب تو اگر کچھ عرصے کہیں دہشت گردی کا کوئی واقع پیش نہ آئے تو عجیب سی حیرانگی ہونے لگتی ہے کہ اتنا سکون کیسے بہر حال .لاہور میں ہونے والے اس بم دھماکےدھماکہ کے نتیجے میں جانیں گنوانے والوں کی لاشیں تخت لاہور سے چییخ چیخ کر سوال کر رہی ہیں کہ آخر کب تک ہم سب چھوٹی چھوٹی خوشیاں بمشکل خریدنے والے ہی ان جنونیوں اور شدت پسندوں کا شکار ہوتے رہیں گے.خود رائے ونڈ کے محلات میں بیٹھ کر تعزیتی بیانات دینا بے حد آسان کام ہے.کم سے کم بزدلوں کی طرح اپنے اپنے بینکرز میں بند ہونا تو چھوڑیے .ایک عام آدمی کو حفاظت یا تحفظ نہیں دے سکتے تو کم سے کم دلاسہ دینے تو موقع پر پہنچیں.اور جنوبی پنجاب میں دہشت گردوں کی تربیت گاہوں پر ایک منظم آپریشن تو لانچ کیجئے. اب اور کتنی لاشیں مزید چائیں تخت لاہور کو اس امر کے ادراک کیلئے کہ دہشت گردی سے بڑا مسئلہ اس ملک میں کوئی بھی نہیں.اور دہشت گردی کے مرض کا علاج شدت پسندی کا خاتمہ ہے.

اگر معاشرے کے بنیادی ڈھانچے آور مائینڈ سیٹ میں تبدیلی حکومت وقت کے بس کی بات نہیں تو پھر حکمرانی کا جواز بھی نہیں ہے.غریب یا متوسططبقے کے افراد کی لاشوں پر حکمرانی کرنے سے کیا بہتر نہیں کہ حق حکمرانی ایسی جماعت کو دیا جائے جو معاشرے میں سے شدت پسندی کے ناسور کو باہر نکال پھینکنے کیلئے عملی اقدامات کی ہمت اور استطاعت رکھتی ہوں.دوسری جانب دفاعی اثاثوں کی نمائش اور پریڈ کرنے والوں کو اب سوچنا چاہیے کہ آخر ایسے اثاثے اور پریڈ کس کام کی جو گلشن اقبال پارک میں جھولوں پر قہقہے لگاتے بچوں کو نہ بچا سکیں.

کیا سمجھائیں ہم ان تمام بچوں کے والدین کو کہ آپ روئیے مت ہمارے پاس ایٹم بم ہے فوج ہے خفیہ ایجنسیاں ہیں.کیا بتائیں ہم اپنے بچوں کو کہ کوئی بات نہیں شکر کرو ہم لوگ اس وقت گلشن اقبال پارک میں موجود نہیں تھے.ہمیشہ کی طرح را یا بیرونی ایجنسیوں پر ملبہ ڈالنے کے بجائے خدارا اپنے پوشیدہ اثاثوں کو تلف کیجئے. یہ اثاثے کبھی بھارت سے کشمیر چھیننے اور کبھی افغانستان میں قندھار تک حکمرانی کے خواب دیکھنے کیلئے بنائے گئے تھے.کونسا خواب پورا ہوا ہماری دفاعی اسٹیبلشمنٹ کو اس کا جواب دینا چاہیے. ان تمام اثاثوں کو جو.مختلف جہادی تنظیموں اور مذہبی تنظیموں کے لبادے میں کام کرتے ہیں ختم کیجئے تاکہ کم سے کم ہمارے بچے ہی امن کی فضا میں سانس لینے کے قابل ہو سکیں. کم سے کم اب تو بم بارود پر آنے والی نسلوں کو فخر کرنے کے بجائے انسانیت بھائی چارے اور امن پسندی پر فخر کرنا سیکھنے دیں.

اس دھماکے میں جاں بحق بچے سیاسی اور دفاعی ایسٹیبلشمنٹ کے ماتھے پر موجود بدنما اغوں میں ایک اور داغ کا اضافہ ہیں. یہ سانحہ اگر کم تھا تو رہی سہی کمی ممتاز قادری کے حامیوں نے اسلام آباد کو یرغمال بنا کر پورا کر دی. سرکاری املاک کو توڑتے پھوڑتے گھروں پر پتھراؤ کرتے یہ افراد دارلحکومت کی سڑکوں پر دندناتے پھرتے رہے لیکن حکومت کے پاس انہیں کنٹرول کرنے کی کوئی حکمت عملی نہ دکھائی دی. وزیر داخلہ چوہدری نثار نے آنکھیں بند کرنے میں ہی عافیت جانی. اور پولیس اور رینجرز کے افسران کو مشتعل افراد سے پٹوانے کے بعد فوج سے درخواست کر دی گئی کہ آئیے اور کنٹرول سنبھالیں.ریڈ زون کا علاقہ جو کہ انتہائی حساس ہے اس تک ہر بار مظاہرین ایسے پہنچ جاتے ہیں جیسے کسی ویرانے میں.یہ خود تمام سیاسی و عسکری اشرافیہ کیلئے لمحہ فکریہ ہے. ممتاز قادری کے جنازے پر حکومت نے خاموشی سے کام لے کر نہ صرف اسے شدت پسندوں کا ہیرو بنا ڈالا بلکہ خود اپنی کمزوری بھی ثابت کر دی تھی کہ شدت پسندی سے نمٹنے کو کم سے کم مسلم لیگ نون بالکل بھی تیار نہیں.

معاشرے سے شدت پسندی کا خاتمہ محض بیانات دینے یا اقلیتوں کے تہواروں میں شرکت کرنے سے ممکن نہیں ہو سکتا.ٹھوس اور جامع اقدامات اور سب سے بڑھ کر حکومت کی مرضی واضح نظر آنی چاھیے.حکومتیں ٹکراو سے بچنے کی پالیسیاں ضرور اختیار کرتی ہیں لیکن اپنی رٹ کھونے کی قیمت پر نہیں. ممتاز قادری کے متوالے جب اسلام آباد میں جلاو گھیراو کر رہے تھے تو حکومت کی رٹ ہمیں کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہی تھی. فوجی دستوں کا طلب کیا جانا گو ایک معمول کی بات ہے لیکن پاکستان میں اس کی اپنی ایک سیاسی اہمیت ہے. راقم نے اس سال کے اوائل میں عرض کیا تھا کہ باخبر ذرائع کے مطابق مارچ یا اپریل میں اس حکومت کے خلاف تحریک انصاف کے دھرنوں سے بھی بڑی سازش ہو گی.اور اگر حالات و واقعات کو سامنے رکھا جائے تو کئی کڑیاں ملتی نظر آ رہی ہیں.

خیر اس سازش کا ذکر پھر کسی دن سہی. اس وقت فہم سے بالاتر بات یہ ہے کہ اسلام آباد پر قابض بلوائیوں سے مذاکرات کس لیئے اور کیوں.یہی کچھ تحریک انصاف کے دھرنے کے دنوں میں کیا گیا اور سول سوسایٹی اور تجزیہ نگار چیختے رہے کہ حکومت غلط روایت ڈال رہی ہے کل کو کوئی بھی جتھہ لے کر اسلام آباد پر چڑھ دوڑے گا اور پھر ان سے بھی مذاکرات کرنے پڑیں گے. آج کے واقعات سے ایک چیز تو طے ہو گئی کہ حکومت کو جلد یا بدیر کڑوے فیصلے لینے ہوں گے. دہشت گردی کے خاتمے کیلئے وزیرستان کی طرح پنجاب سمیت ملک کے کونے کونے میں آپریشن لانچ کرنے ہوں گے اور مائینڈ سیٹ تبدیل کرنے کیلئے شدت پسند اور کالعدم جماعتوں کے سربراہوں کو ملک اسحاق جیسے انجام سے دوچار کرنا ہوگا. اسلام آباد پر حملہ کرنے والے بلوائیوں کے قائدین کو گرفتار کر کے ان پر دہشت گردی کی دفعات لگا کر فوجی عدالتوں میں کیس چلوانے چائیں تا کہ آئیندہ کوئی بھی جتھہ دارلحکومت کو یرغمال بنانے کا سوچے بھی نہیں.ہمارے ملک کے اندرونی مسائل اور طاقت کی جنگ ایک طرف لیکن بین الاقوامی دنیا میں جب سانحہ لاہور اور اسلام آباد کو یرغمال بنائے جانے کی تصاویر موصول ہوتی ہیں تو وہ حیرانگی سے پوچھتے ہیں کہ ایک جانب دہشتگرد لاہور کو خون میں نہلا رہے ہیں تو دوسری جانب شدت پسند اسلام آباد کو یرغمال بناے بیٹھے ہیں ۔ یہ کیسا امن پسند اور تہزیب یافتہ ملک ہے.

ہم چاہے اقوام عالم کو جتنا بھی سمجھانے کی کوشش کریں کہ یہ بھارتی سازشیں ہیں یا ہم میں سے کچھ گمراہ لوگ ہیں سب بیکار ہے.کیونکہ لائیو وڈیوز اور تصاویر چیخ چیخ کر حقیقت کا اعلان کر رہی ہوتی ہیں کہ ہم زخم زخم ہیں اور اس کی وجہ خود ہماری اپنی بنائی ہوئی غلط پالیسیاں ہیں. لیکن ہمارا یقین کیجئے ہم پر امن اور مہذب ہیں وہ تو بس یونہی کبھی کبھار اپنے ہی دارلحکومت پر خود قبضہ کر لیتے ہیں اور اپنی ہی سرکاری و نجی املاک کو جلا لیتے ہیں اور بوریت دور کرنے کی خاطر ہر دوسرے ماہ اپنے بچوں کو خون میں نہلا دیتے ہیں.بھلا ہم سے اقوام عالم کو کیسا خطرہ کہ ہم تو خود اپنی جڑیں کاٹنے کے فن میں ماہر اور یکتا ہیں.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے