لہولہان پاکستان اورمضحکہ خیزترجیحات

اس کالم نگار کا تعلق لکھنے والوں کے اس خاموش گروہ سے ہے جس کا کسی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، نہ کوئی مفاد وابستہ ہے ، قربت شاہ چاہیے نہ محل میں حاضری کا شوق ہے ، عالی جاہ کے ساتھ بیرونی دوروں کی خواہش ہے اجور نہ کسی ایسے طیارے میں بیٹھنے کی جس میں شہنشاہ معظم دوران پرواز حال احوال پوچھیں اور گفت و شنید کریں نہ سلفیاں بنانے کا شوق ہے۔ کسی مقتدر ہستی سے اپنے کسی عزیز کو کوئی فائدہ دلوانا ہے اور نہ ہی کسی میگاپراجیکٹس کا ٹھیکہ لینا ہے ، یہ خاموش، یہ بے غرض گروہ جب تنقید کرتا ہے تو ملک کے مفاد کو سامنے رکھ کر اور جب تحسین کرتا ہے تو خالص میرٹ پر ، کسی سے دشمنی ہے نہ ایسی وابستگی جو قلم کی روانی میں رکاوٹ بنے، چاپلوسی و کاسہ لیسی میرے خون میں شامل تھیں،

میرا یقین میرے پیدا کرنے والے رب پر ہے جو اس نے مقدر میں لکھا ہے وہ ہر حال میں دے گا، کچھ احباب شکوہ کرتے ہیں کہ تم ہمیشہ تنقید کرتے ہو انہیں محبت بھرا جواب ملتا ہے کہ جہاں میرٹ نظر آئے تحسین بھی کرتا ہوں یہ علیحدہ بات ہے کہ تنقید بدقسمتی سے فوری ہائی لائٹ ہو جاتی ہے اور تحسین نظر نہیں آتی، حیرانگی کی بات ہے کہ چوری کھانے والے مجنوں کا گروہ جو ’’شہنشاہ پاکستان‘‘میاں نواز شریف کے گرد حلقہ باندھے کھڑا رہتا ہے وہ بلوچستان سے راکا ایجنٹ پکڑے جانے پر مکمل خاموش ہے۔شہنشاہ پاکستان کی شان میں رطب اللسان رہنے والے حضرات اس قدیم فارمولے پر ایمان رکھتے ہیں کہ کھانا کھاتے وقت فلاں کے دسترخوان پر بٹھو مگر نماز فلاں کے پیچھے پڑھو، چاپلوس گروہ کے ساتھ ساتھ ہمارا میڈیا بھی انتہائی گھناؤنا کردار ادا کر رہا ہے۔

اتوار کو یونیورسٹی میں چھٹی تھی اور دفتر میں بھی ویکلی آف۔ دیر سے جاگا کام کے سلسلے میں راجہ بازار راولپنڈی کی طرف چلا گیا، واپسی پر چاندنی چوک میں ٹریفک بلاک کی وجہ سے رک گیا، مولوی حضرات پارلیمنٹ کی طرف رواں دواں تھے ، چاندنی چوک میں اپنی آنکھوں سے حکومتی رٹ کی وہ درگت بنتے دیکھی کہ ’’الامان الحفیظ‘‘ 4پانچ پولیس والے ڈنڈا برداروں کے ہتھے چڑھ گئے اس گروہ نے ان کی وہ مالش کی کہ انہیں جوتوں کے بغیر بھاگنا پڑا۔ اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھ ہی رہا تھا کہ موبائل کی بل بجی اور بتایا گیا کہ لاہور گلشن اقبال پارک دھماکوں سے سے لرز اٹھا ، اس دھماکے میں 5درجن سے زائد معصوم اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور تقریبا 3سو سے زائد لوگ زخمی ہو گئے ، لاہور کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ، ولی عہد میاں شہباز شریف تقریباً پانچ گھنٹوں کے بعد میڈیا کے سامنے خون کا عطیہ کرتے ہوئے دکھائی دیئے۔ قوم ان کے اس جذبے کی تعریف کرتی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کینسر زدہ خون کس کھاتے میں جائے گا اگر یہ کینسر زدہ خون کسی زخمی کو لگا دیا گیا تو وہ غریب ساری زندگی سسک سسک کر مرے گا۔

ایک صحافی ان سے سوال کرتا ہے کہ لاہور میں مصروف ترین پارک سکیورٹی کا انتظام ، واک تھرو گیٹ اور کیمرے موجود نہیں تھے اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں اپنی غلطی تسلیم کرنے کی بجائے بڑی ڈھٹائی اور بے غیرتی سے جواب دے رہے ہیں کہ میٹرو بس سروس روزانہ ایک لاکھ لوگوں کو لے کر آتی جاتی ہے اور اورنج ٹرین بھی بن رہی ہے انہیں زخمیوں پر مرہم رکھنا چاہیے تھا مگر وہ اس موقع پر وہ میٹرو کا نام لینے سے بھی باز نہ آئے کیوں آتے بھاری بھر کمیشن جو ملتا ہے اربوں روپے میٹرو پر خرچ ہو رہے ہیں مگر ہسپتال کی حالت یہ ہے کہ زخمیوں کو علاج کیلئے بیڈ نہیں مل رہے تھے۔

بلوچستان سے ’’را‘‘ کے ایجنٹ کی گرفتاری کے بعد ہمارے حکمرانوں کے منہ میں دہی جم گیا ہے ان کی زبانیں تالو سے چمٹ گئی ہیں ، وہ میڈیا بھی مکمل خاموش ہے جو ہر وقت ’’امن کی آشا‘‘ کی راگ الاپتا ہے، اس گروپ نے تو اجمل قصاب کے گھرکو بھی ڈھونڈ نکالا تھا، ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ پاکستان اس کا گھر نہیں ہے ، ہندوستان کے ساتھ دوستی کرنے سے پہلے انہیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہندوؤں نے تقسیم ہندوستان کو غم و غصے کے ساتھ قبول کیا تھا ہندوؤں کو اس بات پر بڑی مایوسی تھی کہ جب پورے برصغیر پر اس کا غلبہ ہونے والا تھا عین اس وقت یہ نعمت ان کے ہاتھوں سے نکل گئی تھی۔

الطاف حسین قریشی اپنی کتاب’’ملاقاتیں کیا کیا‘‘ میں سابق وزیراعظم پاکستان چوہدری محمد علی کا انٹرویو کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ستمبر 1946ء میں جب نہرو نے عبوری کابینہ میں وزیر خارجہ کا عہدہ سنبھالا تو اس نے برملا کہا کہ دنیا میں صرف چار بڑی طاقتیں ہیں، امریکہ ،روس ، چین اور ہند اس فہرست میں برطانیہ شامل نہیں تھا۔ نہرو نے 1945ء میں اپنی کتاب ’’تلاش ہند‘‘ میں یہ اعلان کیا کہ مستقبل میں بحراوقیانوس کے بجائے بحرالکاہل اعصابی مرکز ہو گا۔ پاکستان کو قبول کرنے پر ہندوؤں کے پندار کو بڑی ٹھیس پہنچی اور ان میں جذبہ انتقام ابھر آیا، جنرل ٹکر نے لکھا ہے کہ ہندو اکثریت کا انداز فکر انتقامی ہے، ان کا ارادہ تھا کہ پاکستان کے علاقے کو ایک ایک انچ کاٹ لیں گے اور ہم ایسا بندوبست کریں گے کہ وہ اقتصادی طور پر پنپ نہ سکے ہندو ابھی اسی سوچ پر کاربند ہیں مگر یہ باتیں شہنشاہ پاکستان کی سمجھ میں نہیں آئیں گی کیونکہ ان کے ہندوستان کے ساتھ ذاتی کاروباری مفادات وابستہ ہیں ۔ ایک تاجر کیونکر اپنے کاروباری مفادات کو ٹھیس پہنچا سکتا ہے۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ داروں کو اگر سزا دی جاتی تو ملک میں انارکی نہ پھیلتی۔ حضرت عمرؓ کا قول ہے ’’جو ریاست مجرموں پر رحم کرتی ہے وہاں کے بے گناہ لوگ بڑی بے رحمی سے مارے جاتے ہیں‘‘ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ داروں کو بڑے انعام و اکرام سے نوازا گیا۔
دکھ کے ساتھ یہ لکھنا پڑ رہا ہے حالات کی خرابی میں کئی عوامل کام کر رہے ہیں لیکن سب سے زیادہ قابل اعتراض کردار دانشور ادا کر رہے ہیں ۔ تعلیم تو انسان کو باضمیر ، نڈر اور جرات مند بناتی ہے کیونکہ علم کی روشنی اس میں فراست اور اعتماد پیدا کرتی ہے لیکن ہمارے اکثر دانشور کم ہمت ، بے اصول اور بے ضمیر ثابت ہوئے ہیں وہ جنہیں قوم کی قیادت سنبھالنا چاہیے تھی اور اپنے جرات مندانہ اقدامات سے غلط کاموں کے ہاتھ روک لینا چاہیے تھے وہ بے حس تماشائی کی حیثیت سے بگاڑ پھیلتا ہوا دیکھ رہے ہیں وہ جو برسراقتدار آ گیا انہوں نے اس کا قصیدہ لکھ لیا ۔ دانشوروں کی زندگی کا مقصد تو بہت عظیم ہوتا ہے وہ صداقت اور اصولوں کی خاطر اقتدار کو پائے حقارت سے تھکا دیا کرتے ہیں لیکن یہاں ایسا نہیں ہوا اس کے نتیجے میں ۔
ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوہ اہل نظر گئی

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے