انٹرٹینمنٹ میڈیا اور تنازعہ کشمیر

قفس اداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو ‌‌فلم‌’حیدر‘ کے ایک سین میں ایک کشمیر ی ، بھارتی زیرانتظام کشمیر کے بدنام زمانہ انٹروگیشن سینٹر ’ماما ۲‘ میں یہ غزل گا رہا ہے ، اس غزل کے الفاظ ، اس سین میں دکھایا جانے والا اس وقت کا ماحول اور پھر گانے والے کی آواز مل کر کچھ ایسا تاثر پیدا کرتے ہیں کہ سننے والے کی‌کیفیت‌بدل‌جاتی ہے۔ میں اس سین کو بار بار دیکھتی اور سوچتی ہوں کہ ان پر کیا گذری ہوگی جن لوگوں نے حقیقت میں ان حالات کا سامنا کیا جو ’حیدر‘ میں دکھائے گئے ہیں۔

میں بھارتی‌فلمیں دو سال پہلے تک قطعی نہیں دیکھتی تھی۔’حیدر‘ وہ پہلی ہندوستانی فلم ہے جو میں نے دیکھی ، اور پھر اس کے بعد کئی فلمیں دیکھی ہیں ، اور احساس ہوا کہ اپنی بات عوام کے ایک بڑے حصے تک پہنچانے کے لئے یہ کتنا زور آور اور پر اثر میڈیم ہے۔بنیادی طور پر مسئلہ کشمیر کے تین فریق ہیں ، انڈیا اور پاکستان اور خود کشمیری ۔ اس لئے تینوں فریقوں کو اپنے موقف کے پرچار کا برابر حق ہے ۔ ایسا وہ کسی بھی ممکن طریقے سے کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ وہ اس سے بھی واقف ہیں کہ اس کے لئے وہ کن ذرائع کا کس طرح استعمال کر سکتے ہیں۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ انٹرٹینمنٹ میڈیا کے ذریعے اپنے موقف کو کس طرح لوگوں کے ذہنوں میں بٹھایا جا سکتا ہے ۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ کہانی کی صورت میں دیکھی پڑھے جانے سے زیادہ اثر کرتی ہے۔ عوام کی ایک بڑی تعداد اس کو دلچسپی سے دیکھتی بھی ہے ۔الغرض نظریات کے حوالے سے انٹرٹینمنٹ میڈیا بھی پورا جنگ لڑ سکتا ہے ۔ انٹرٹینمنٹ میڈیا میں انڈیا کے پاس بالی وڈ ہے جس کی فلمیں پوری دنیا میں مشہور ہیں ، اور پاکستان کے ڈراماانڈسٹری کی شہرت اچھی رہی ہے۔ کشمیریوں کے پاس اس باب میں کیا ہے ، یہ ایک الگ موضوع ہے جو کو آئندہ کبھی زیر بحث لایا جائے گا۔

انڈین بالی ووڈ نے کشمیر کے موضوع پر گزشتہ چند سالوں میں کئی فلمیں بنائی ہیں۔

’فنا ‘ جو اگرچہ حقائق سے کوسوں دور تھی ، لیکن کشمیر کی تحریک کو دہشت گردی ثابت کرنے کی ایک اچھی کوشش تھی۔ پوری کہانی کا پیغام یہ تھا کہ کشمیری عوام بہر حال انڈیا کے ساتھ ہیں اور اس تحریک کے خلاف ہیں۔ اس فلم کی شہرت موضوعاتی فلم کی بجائے ایک رومانٹک مووی کے طور پر زیادہ تھی۔

بالی ووڈ کی ایک اور خوبصورت کاوش 2014 میں وشال بھروج کی فلم ‘حیدر’ کی صورت میں سامنے آئی۔ اس فلم نے کامیاب بزنس بھی کیا ایوارڈز بھی جیتے، اس فلم کا لکھاری چونکہ ایک کشمیری تھا اس لئے اس نے وادی کشمیر کی اصل صورت حال کو بہت اچھی طرح فلمایا ، اس کے بعض مناظر تو اس قدر اثر انگیز تھے کہ انسان جتنی مرتبہ دیکھے تو ہر بار روئے گا۔ ایسی فلم کا انڈیا میں بننا اور سنسر ہو کر سینیما تک پہنچنا بلاشبہ غیر معمولی بات ہے۔ پوری فلم دیکھیں تو احساس ہوتا ہے کہ انٹرول سے پہلے رائٹر( جو کہ ایک کشمیری ہے) نے اپنی مرضی چلائی اور حقائق لکھے جبکہ انٹرول کے بعد اس کا اپنے قلم پر اختیار ختم تھا ۔

حیدر' دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ بھارت میں اس طرح کی فلم کیسے بن سکتی ہے؟
حیدر’ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ بھارت میں اس طرح کی فلم کیسے بن سکتی ہے؟

مسلح تنازعہ لوگوں کی زندگی کو کیسے اثر کرتا ہے ، پہلے حصے میں یہ انتہائی کامیابی سے دکھایا گیا۔ بالخصوص شاہد کپور کا سری نگر لال چوک والا سین ، اور کشمیر کی دیواروں پر گو انڈیا گو بیک کے نعرے اور مقبول بٹ شہید کی تصاویر، ٹارچر سیلز کے اندر کشمیریوں کی حالت سب دکھانا نہ صرف ایک بولڈ قدم تھا بلکہ کشمیریوں کو اپنے دل کے قریب بھی محسوس ہوا۔ جبکہ انٹرول کے بعد والے حصے کو دیکھ کر کشمیر کی تحریک کا تاثر یہ تھا کہ یہ چند لوگوں کی ذاتی لڑائی تھی ، یا کشمیریوں نے اس تحریک کو ایک دوسرے سے انتقام لینے کے لئے استعمال کیا۔

اسی طرح کی ایک اور کوشش 2014 کی ہی ایک فلم ‘آئڈینٹیٹی کارڈ'(identity card)تھی اور اس کا بھی مجموعی تاثر یہ تھا کہ کشمیری نوجوانوں نے انڈیا کے خلاف ’آتنک واد‘ میں حصہ لیا۔ لیکن انڈیا اس قدر دیالو اور مہربان ہے کہ اس نے انہی کو ری ہیب کیا ، اب سب امن اور شانتی ہے۔ حقائق جو بھی ہوں ، فلمایا جو بھی ہو ،، وہ کہیں نہ کہیں انڈیا کے موقف کی تشہیر ضرور کرتا ہے

دوسری طرف پاکستان کا انٹرٹینمنٹ میڈیا ہے۔ پاکستان کی فلم انڈسٹری سے خیر یہ توقع کی ہی نہیں جا سکتی کہ وہ کوئی اچھی فلم بنائیں گے۔ پاکستان کے ڈرامے اگرچہ بالی ووڈ کی فلموں کی طرح پوری دنیا میں مقبول نہیں پھر بھی بہت پر اثر میڈیا ضرور ہیں۔نہ صرف پاکستان بلکہ انڈیا میں بھی ان ڈراموں کو دیکھنے والے بڑی تعداد میں ہیں۔

نوے کی دہائی میں پاکستان میں تین ڈراموں میں کشمیر کو موضوع بنایا گیا ، تینوں ڈراموں نے بے حد مقبولیت پائی۔ اتنی زیادہ کہ ‘انگاروادی’جس وقت ٹی وی پر آتا تھا اس وقت سڑکوں پر ٹریفک کم ہو جاتی تھی۔ لوگ سب ضروری کام چھوڑ چھاڑ ٹی وی کے آگے بیٹھ جاتے تھے ، اور تقریبا ہر جگہ وہ موضوع گفتگو بنتا تھا۔ پھر اس کے بعد رؤف خالد کا ہی ایک اور ڈرامہ ’لاگ‘ اس نے بھی بہت شہرت حاصل کی۔ اگرچہ اس میں کشمیر کی اصل صورت حال کے برعکس گلیمر کا عنصر بہت نمایاں تھالیکن کشمیر سے لوگوں کی محبت اس قدر تھی کہ اس ڈرامے نے شہرت کی بلندیوں کو چھوا۔

ڈراما سیریل انگار وادی کو بہت مقبولیت ملی
ڈراما سیریل انگار وادی کو بہت مقبولیت ملی

اس کے بعد پی ٹی وی نے ہی ایک اور ڈرامہ ’جبر‘ بنایا۔ پی ٹی وی کے مقبول ترین ڈراموں میں سے ایک تھا۔ اور اس کو بھی لوگوں نے ‘انگار وادی’ والے ذوق و شوق سے ہی دیکھا۔ اس کے چند سال بعد کشمیر کے جہاد اور پاکستان کی پالیسی میں آئی واضح تبدیلی کے بعد سے اب تک کشمیر پر کوئی ڈرامہ کوئی فلم نہیں بن سکی۔ ٹی وی یا سینیما میں کسی ایک اچھی چیز کی شہرت دہائیوں تک رہتی ہے ، لیکن پاکستان کے عوام اور حکمران باقی ذمہ داریوں کی طرح اس کو بھی یکسر فراموش کئے ہوئے ہیں۔

ڈراما سیریل ''لاگ'' بھی بہت دلچسپی سے دیکھا گیا
ڈراما سیریل ”لاگ” بھی بہت دلچسپی سے دیکھا گیا

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انٹرٹینمنٹ میڈیا لوگوں تک پیغام پہنچانے کا موثر ترین ذریعہ ہے۔ اس سے نہ صرف ثقافت کے رنگ ، مسلح تنازعہ کے عوامی زندگی پر اثرات دکھائے جا سکتے ہیں بلکہ اسی میڈیا کے زریعے سے عوام کے ذہنوں میں اپنا موقف بھی بٹھایا جا سکتا ہے۔ کشمیریوں کی اور اپنے موقف کی وکالت کی جا سکتی ہے اور اس میڈیم سے جو بات لوگوں کو سمجھائی جا سکتی ہے وہ ایک ہزار زبانی کلامی تقریروں سے نہیں ہو سکتی۔ میں سترہ سال بعد آج بھی ’ لاگ‘ کی زبیدہ کا دکھ اپنے دل میں محسوس کرتی ہوں۔ میں آج بھی انگار وادی کے کیپٹن حمزہ کے گال میں ڈرل مشین کے سوراخ کرنے پر اسی طرح چیختی ہوں جس طرح بچپن میں تب چیخی تھی جب یہ ڈرامہ میں نے پہلی بار دیکھا تھا۔ میں ’جبر‘ کی سارہ کا دکھ آج بھی اسی طرح دل میں محسوس کرتی ہوں جس طرح آج سے 19سال پہلے کیا تھا۔ میں راجو پر تشدد ہوتے دیکھ کر بھی پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی اور حیدر کیے ایک سین میں لاشوں کو دیکھ کر پاگل ہونے والے لڑکے کا سوچ کر اب بھی میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔

تاریخ انھی چیزوں میں زندہ رہتی ہے۔ ادبی دنیا کا کسی بھی تصادم میں ایک اپنا رول ہوتا ہے جو کہ بدقسمتی سے پاکستانی میڈیا اور ادیب بھول چکے ہیں یا جان بوجھ کر غفلت برتتے ہیں۔ ادب بھی ایک محاذ ہے ، اور اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ کوئی دوسرا محاذ۔ لیکن ہمارے اس محاذ کے جنگجو گہری نیند سو رہے ہیں۔ کشمیر ہماری شہہ رگ ہے تو ہم نے اپنی شہہ رگ کی حالت دنیا کو دکھانے کے لئے اپنی ذمہ داری قبول کی۔ کیا ہمارا فرض یہ رہ گیا ہے صرف کہ پاکستان کے کسی بھی قومی دن پر کشمیر کو ثقافتی طائفے کا حصہ دکھا کر اطمینان سے سو جائیں ، یا پھر سال میں گن کر کی جانے والی پانچ تقریروں میں کشمیر کو شہ رگ قرار دے دیں ، یا (آزاد کشمیر کے عوام ) کسی بھی کشمیری قومی دن کے موقع پر لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹتے ہوئے یہ کہہ دیں کہ کشمیر کا مسئلہ حل ہونا خطے کے امن کے لئے ضروری ہے۔

خطے کا امن بے پناہ ضروری ہے ، لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو تسلیم کرتے ہوئے ، اپنے مسائل کی تشہیر کے لئے ہر ممکن پر امن زریعہ کا استعمال کریں۔ یہ ذمہ داری صرف حکومت کی نہیں بلکہ ہر فرد کی ہے خواہ اس کا تعلق زندگی کے کسی شعبے سے ہو ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے