تھر، امکانات کی سرزمین

اللہ تبارک وتعالیٰ نے کائنات تخلیق کرتے وقت یہاں کے ہر ذرے کو کار آمد بنایا ہے، اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ سمندر ،ریگستان،نہریا تھر کی زمین جیسی نعمتوں سے کس طرھ سے مستفیذ ہوتاہے۔لو گوں سے اکثر سُنا کرتی تھی کہ تھر بنجر ہے، وہاں کسی قسم کی کوئی پیداوار نہیں اُگتی ۔ یہ سب سوچ کر میں حیران ہو جاتی تھی کہ قدرت کی بنائی گئی کا دنیا میں کیا واقعی ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی شے بے سود یا بے ثمر ہو ۔۔!!مگر اللہ پر کامل یقین کے ساتھ میرا ہمیشہ سے ماننا ہے کہ قدرت کی جانب سے دنیا میں کوئی بھی چیز بنجر یا بے سود پیدا نہیں کی گئی ہے۔

اس سلسلے میں پاکستان فیڈریل کونسل آف کالمسٹ کی ٹیم کے ساتھ تھر جانے کا اتفاق ہوا تو میری تشنگی ختم ہوئی اور تھر کی زندگی دیکھ کر میرے مؤقف کو اورطقویت ملی۔ صحرائے تھر قدرت کا عطاکر دہ ایک قیمتی خزانہ ہے۔۔!! قدرت نے صحرائے تھر کو جہاں محیرالعقول سے نوازا ہے وہا ں اسے معدنی دولت سے بھی مالامال کیاہے ۔تھر پاکر کا وسیع ع عریض علاقہ اپنے وجود میں بے پناہ قیمتی وسائل اور خزانے سمیٹے ہوئے ہے جو اس سر زمین اور اس کے مقامی لوگوں کے لئے عطیہ خداوندی ہے۔ مگر افسوس ملکی نظام کی ناتوانی نے معصوم تھر یوں کواس خزانے سے مستفید ہونے کے مواقع بہم نہیں پہنچائے ۔

تھر کے معدنی وسائل کو کام میں لا کر تھر کی تقدیر بدلنے سے یکسر لاپراہی برتی گئی۔ تھر میں دریافت ہونے والا 20 سے30میٹر کثافت کوئلہ ماہر ین کے مطابق پاکستان کی صدیوں کی ضررویات کیلئے کافی ہیں،اس سے چار روپے فی یونٹ بجلی کے ساتھ ساتھ دیگربہت سی ضروریات باآسانی پوری کی جا سکتی ہیں، جبکہ کوئلے سے زمین کے اندر،گیس ،ڈیزل اور پٹرول کا متبادل بھی تیار کیا جاسکتا ہے ۔۔!!

دنیا بھر میں چالیس فیصد بجلی کوئلے سے پیداکی جاتی ہے جبکہ ہمارے ہاں کوئلے کے وسیع ذخائر مو جو د ہو نے کے باوجود اس سے فائدہ نہیں اٹھایا جاتا، تھر پاکر کے سرحدی علاقے ننگر پارکر میں کارونجھر کا پہاڑی سلسلہ تقریباً27مربع کلومیٹررقبے تک پھیلا ہواہے اور اسکی اونچائی تین سومیٹر سے بھی زیادہ ہے ۔یہ پہاڑی سلسلہ دنیا کے قیمتی اور مضبوط تر ین پتھر گرینائیٹ پیدا کرتی ہیں،اس پتھر کی مضبوطی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ صدیوں تک گھسنے یا ٹوٹنے والا نہیں ہے۔ گرینائیٹ سویڈن کے بعد تھر پارکر میں کا رو نجھرکی پہا ڑیوں میں پایا جاتا ہے۔ کارونجھر میں زرمبادلہ کمانے کاآج تک کوئی منصوبہ زیر غور نہیں رہا ہے جبکہ پڑوسی ملک بھارت اس خزانے سے فائدے سمیٹنے کیلئے کوششوں میں مصروف ہے۔

تھر کا علاقہ انتہائی اہمیت کی حامل ہے ۔یہاں ویراواہ کے قرب وجوار میں ہزاروں ایکڑرقبے پر چینی مٹی کا ذخیرہ زمین میں دفن ہے جسے ’’چائناکلے ‘‘ بھی کہاجاتا ہے ۔یہ چینی مٹی سامکس‘ادویات ‘سیمنٹ‘ڈسٹمپر ‘رنگ صابن اور برتن وغیرہ بنانے کے کام آتی ہے ۔۔!!

تھر میں بارش اگرچہ نویدزندگی ہے لیکن معدنی وسیلوں کی فراہمی بھی بارشوں سے حاصل ہوتی ہے۔بارشوں سے کچھ نشیبی علاقوں میں پانی جمع ہو نے کے باعث نمک کی تقریباً100جھیلیں وجود میں آتی ہیں ،یہ نمکن جھیلیں بڑی کارآمد ہوتی ہیں۔ان سے نمک برآمد کیا جاسکتا ہے۔ ۔!!تھرمیں ڈیپلوں کی زمین ایک حیران کن زمین ہے جہا ں بغیر کھاد گاجر ،پیاز اورٹماٹر جیسی سبزیاں پیدا ہوتی ہیں۔مقامی لوگوں کی جانب سے چھوٹے پیمانے پر کی جانے والی کاشتکاری کا شت کاری حکومتی توجہ سے بڑے پیمانے پر کر لی جائے تو نہ صرف علاقے کے لوگوں کے لئے بہت فائدے مند ہو سکتی ہے بلکہ ملکی سطح پر بھی سبزیوں کی کاشت سے زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔

اتنی کثیر تعداد میں نعمتوں سے مالامال تھر تاحال عدم توجہ کا شکار ہے ۔ حکومتی نااہلی کا یہ عالم ہے کہ غربت میں مبتلا تھر کے لوگ روزمرہ زندگی کے دیگر بہت سے گھمبیر مسائل سے دوچار ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ تھر کی اپنی معدنیات پر توجہ دے دی جائے تو وہاں کے باشندوں کے گھر میں خوشحالی کے دیے جلائے جا سکتے ہیں۔ جبکہ تعلیم اور شعور کی آگاہی سے وہاں کے لوگوں میں جینے کی اک نئی اُمنگ پیدا کی جاسکتی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ غریبوں کے نام پر اقتدار کے مزے لوٹتی حکومت ان قیمتی خزانوں کو کس طرح سے یہاں کی لاچار عوام کے لئے استعمال کرتے ہیں یا پھر اللہ کی فراہم کردہ ان نعمتوں پرناشکری کے مرتکب رہتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے