دینی جماعتوں کا المیہ

تحفظ نسواں اور ممتاز قادری کے ایشو پر ایک بار پھر دینی جماعتیں ’’کل جماعتی‘‘میز پر جمع ہیں ہر ذائقے کا ( غلط مت سمجھیں مطلب ہر مسلک ) مولوی اس میز پر جمع ہے ۔جماعۃ الدعوۃ کے حافظ سعید اہلحدیث ، مولانا فضل الرحمن دیوبندی ، سمیع الحق دیوبندی ( لیکن ان کی فضل الرحمن دیوبندی سے نہیں بنتی ، سراج الحق ( ان کو خود نہیں پتا کہ ان کا مسلک کیا ہے کیونکہ ایران میں جائیں تو شیعہ کی طرف جھکائو ، سعودی عرب کے تحفظ کی بات ہو تو تن من دھن سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ، کسی عیسائی بستی سے ووٹ لینے ہوں تو ان کے ساتھ ، لیکن اندر سے صرف اپنے ساتھ ) امین شہیدی شیعہ مسلک ( ساجد نقوی بھی شیعہ مسلک سے ہیں لیکن وہ امین شہیدی کے موجودگی میں تھوڑا سا گھبراتے ہیں ) ، ابوالخیر زبیر بریلوی مسلک ، انس نورانی بریلوی مسلک وغیرہ وغیرہ ۔۔۔دینی جماعتوں کا دعوٰ ی تھا کہ اسلام بچانے کے لیے اور پاکستان میں نظام مصطفی ٰ کے نفاذ کے لیے اتحاد ناگزیر ہے لیکن باقیوں کی بات چھوڑیں میں سٹیج پر بیٹھے ہوئے چار بڑی جماعتوں کے بڑے لیڈروں کی بات کرتے ہیں جن میں حافظ سعید ، فضل الرحمن ، سراج الحق اور سمیع الحق شامل ہیں .

گزشتہ چند برسوں میں دیکھا جائے تو یہ چاروں شاید ہی کبھی اکٹھے ہو سکے ہوں ۔چند ایشوز کہہ لیں یا چند مفادات کی جدو جہد یہ لوگ کچھ دیر کے لیے تو اکٹھے ہو جاتے ہیں لیکن ایک سٹیج پر بیٹھ کر بھی ان کے دل ایک نہیں ہوتے ۔متحدہ مجلس عمل سے لے کر دفاع پاکستان کونسل تک سینکڑوں جلسے کروڑوں کے اخراجات اور سینکڑوں دنوں کی محنت بھی ان رہنمائوں کے دل ایک نہیں کر سکی ۔مولانا سمیع الحق کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ وہ کسی بھی اتحاد کے بے ضرر سے قائد بن جائیں . مولانا فضل الرحمن جن کی سیاسی بصیرت سے انکار کرنا ممکن نہیں وہ سمجھتے ہیں ( جو کسی حد تک درست بھی ہے ) کہ قیادت کرنا صرف ان کا حق ہے . سراج الحق ایک اجڑی جماعت اسلامی ( اس لیے کہ ان کی مقبولیت روز بروز کم ہوتی جارہی ہے ) کو لے کر کوشش یہی کرتے ہیں کہ کم محنت میں ذیادہ سے ذیادہ فوائد سمیٹے جا سکیں ، رہ گئے حافظ محمد سعید تو ان کی چھوٹی سی خواہش ہوتی ہے کہ قیادت جو بھی کرے وہ کارکنان اور سرمایہ لگانے کے لیے تیار ہیں تاکہ حکومت وقت بیرونی دباؤ میں آ کر انہیں اور ان کی جماعت پر کوئی کارروائی نہ کر سکے ۔

اب رہ گئے بریلوی اور شیعہ مسلک کے قائدین تو جناب انس نورانی اور ابوالخیر زبیر بے ضرر سے انسان ہیں تاہم دونوں شاہ احمد نورانی جیسی عزت ،مرتبہ و مقام چاہتے ہیں . بد قسمتی سے ان کو تو بریلوی مسلک کے لوگوں کی بھی حمایت حاصل نہیں ہے ۔

امین شہیدی کے بارے میں ساجد نقوی اور دیگر لوگوں کی رائے یہ ہےکہ ایران نے اب ساری فنڈنگ ان کی جماعت پر لگانا شروع کر دی ہے اور یہی وجہ ہے کہ دونوں کے موقف میں واضح فرق بھی دکھائی دیتا ہے ۔اسی طرح ایک اور اہم جماعت سپا ہ صحابہ جو اب اہلسنت والجماعت کے نام سے جانی جاتی ہے ، اس کے سربراہ مولانا محمد احمد لدھیانوی ہیں ، ان کا تذکرہ اس لیے نہیں کیا کہ اس اجلاس میں شامل نہیں ہوئے یا انہیں دعوت نہیں دی گئی . شیعہ فرقے کے لوگ بیٹھے ہوں وہاں یہ جماعت بالکل نہیں جاتی ، اسی طرح جہاں یہ بیٹھے ہوں وہاں شیعہ فرقے کے لوگ جانے سے انکار کر دیتے ہیں تاہم اخباری بیانات اور تقریروں میں سب سے زیادہ اتحاد امت کی باتیں یہی کرتے ہیں .

اب آتے ہیں اصل موضو ع کی طرف ۔۔

ان جماعتوں کو جب بھی کبھی ایسا ایشو ہاتھ لگ جائے جس میں کوئی غیر شرعی فیصلہ کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ فورا سٹیج سجا لیتی ہیں . شرعی اور غیر شرعی کا فیصلہ یہ اپنے اپنے طور پر کرتے ہیں ۔اصل مسئلہ ان کی اپنی بقاء کا ہوتا ہے ۔

یہ اتحاد امت کے دعوے کرتے ہیں لیکن خود پاکستان میں کبھی ایک نہیں ہو سکے کیونکہ اقتدار، سربراہی اور کرسی ایسی چیزیں ہیں جو انہیں اتحاد امت سے باز رکھتی ہیں ۔

اگر یہ رہنماء سب کسی ایک جگہ اکٹھے بھی ہوجائیں تو ایک میز اور اسٹیج پر بیٹھنے کے باوجود دل ہی دل میں ساتھ والے کو کوس رہے ہوتے ہیں کہ کہیں اس کا نام اور تصویر شائع ہو جائے اور وہ رہ جائیں ۔ان کی انہیں حرکات کی وجہ سے آج تک اسلام کی شکل معاشرے میں مسخ ہوتی جا رہی ہے.

چند دن یہ جلسے جلوس نعرے دعوے سب کچھ کرتے ہیں ۔
ہر جماعت کے کارکنان جنہیں بسیں کھانا اور جھنڈے مرکزی فنڈ سے فراہم کیے جاتے ہیں، آتے ہیں،،، فلک شگاف نعرے لگاتے ہیں ،،،،ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر رہنماء اظہار یکجہتی کی تصاویر بناتے ہیں اور جلسہ ختم ہوتے ہی ایک دوسرے کی ٹانگیں کیھنچنے میں لگ جاتے ہیں ۔

سوچنے اور غور کرنے کی بات ہے کہ جو رہنماء خود ایک نہیں ہو سکے کیا وہ امت کو ایک کر سکتے ہیں ؟؟؟

ممتاز قادری کے ایشو پر تو بریلوی جماعتوں نے باقی مسالک کے علماء کو ایک طرف کر دیا اور ایسی صورتحال پیدا کر دی کہ شاید یہ اب اس ایشوپر کچھ نہ کر سکیں تاہم حقوق نسواں کے نام پر پھر سے دھماچوکڑی مچانے کی تیاری ہو رہی ہے البتہ اس کی آڑ میں کچھ لوگ پھر سے متحدہ مجلس عمل کے مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں کیونکہ ان کی نگاہیں آنے والے انتخابات پر ہیں ۔

لیکن المیہ یہ ہے کہ ان جماعتوں کا مرکزو محور صرف اپنی جماعت کے مفادات ہیں اس کے سوا کچھ نہیں .
جس دن یہ اپنے اپنے دائرے سے باہر نکل کر امت کا سوچیں گے تو شاید کچھ ہو سکے لیکن فی الحال ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا.
امت کو چاہیے کہ یا لیڈر شپ بدلے یا ذلیل ہو تی رہے .
آپشن موجود ہے .

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے