دھرنا،مولانااورنرگس فخری

کسی زمانے میں جب کسی کام میں وقت ضائع ہوتا تھا تو کہتے تھے کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے۔۔۔ آج یہ محاورہ بہت شدت سے یاد آیا جب سر شام کچھ شرفاء نے سفر کا قصد کیا۔مگر محاورہ میں کچھ ترمیم یار لوگوں نے کردی ہے: کھایا پیا حلوہ مانڈا، میٹرو سٹیشن کا گلاس توڑا بارہ لاکھ۔۔۔

کچھ ہنسی بھی آئی اور تھوڑا دکھ بھی ہوا۔۔ ہنسی آئی ان دھمکیوں پر جو حکومت کو دی گئیں، دکھ ہوا ان کارکنوں پر جو امیدوں کے ساتھ آئے تھے، ایک لمبی چوڑی فہرست پکڑائی گئی جس پرمطالبات درج تھے۔۔۔ یہ سب سلسلہ شروع ہوا تو ممتاز قادری کو سرکاری شہید قرار دینے اور اس کے اڈیالہ جیل کے سیل کو قومی ورثہ قرار دینے کے ساتھ دیگر چند مطالبات بھی شامل تھے اور یہ سارا معاملہ ستائیس روز میں ہونے والے چہلم کے موقع پر ہونے والی دعا کے فوراً بعد شروع ہوا۔ یار دوستوں کا خیال تھا تمام لوگ ایک ریلی کی شکل میں اسلام آباد داخل ہوں گے اور سیر سپاٹے کے بعد واپس نکل جائیں گے۔

لیکن ان کا خیال غلط ثابت ہوا ۔۔ یوں معلوم ہوا کہ طاہر القادری دھرنا پارٹ ٹو شروع ہونے کو ہے۔۔۔ لیکن یہاں بھی اندازے غلط ثابت ہوئے مذہبی جوش سے بھرے نوجوانوں نے وہ کیا جو پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کے کارکنوں نے نہیں کیا، یعنی میٹرو سٹیشن پر توڑ پھوڑ کی، موٹر سائیکلوں کو آگ لگائی، صحافیوں کے کھنے سینکے، متبرک قسم کی گالیوں سے بھرے نعرے میٹرو کے علاوہ جگہ جگہ پینٹ کیے۔۔

بات یہیں تک رہتی تو ٹھیک تھا مگر گالم گلوچ کا سلسلہ سٹیج تک چلا گیا۔۔ کئی مولوی حضرات نے ماشاء اللہ ایسی ایسی گالیاں دیں کہ شیطان بھی شرما گیا ہو گا۔۔ صحافیوں کے بعد حکومت اور حکومت کے بعد بات آئی آرمی چیف اور آرمی تک۔۔ مجھے حیرت ہے کہ یہ لوگ ہر دو نعروں کے بعد گندی اور غلیظ گالیاں دیتے۔۔ ہر تقریر ڈنڈے سے شروع ہو کر نواز شریف اور دجالی میڈیا کے گلے تک پہنچتی اور پھر ایمان افروز نعرے دوبارہ شروع ہو جاتے۔

اگر یہ طرز تخاطب ان کا یہاں شہر اقتدار میں ہے تو پھر یہ حضرات اپنے لاؤڈ سپیکر پر اہل علاقہ کی سماعت پر کیسی کیسی بمباری کرتے ہوں گے، جتنے خشوع و خضوع کے ساتھ مولانا حضرات نے گالیاں دیں، مجھے محسوس ہوا کہ ان کا اصل مسئلہ یہ تھا کہ گالیاں کافی عرصہ سے بڑے بڑے شکم میں پھنسی تھیں جنہیں نکالنے کے لیے ان سب نے اسلام آباد کا رخ کیا۔۔اور پھر یہاں سے شکم ہلکے ہوتے ہی لبیک لبیک کے نعرے لگاتے روانہ ہو گئے۔

میں نے طاہر القادری صاحب کے دھرنوں کے دونوں پارٹس میں بنفس نفیس خود کوریج کی اور کئی مرتبہ عوامی تحریک اور پی ٹی آئی کے دوستوں سے پٹتے پٹتے بچا۔۔ مگر شکر ہے کہ یہاں میری ڈیوٹی نہ لگی جس کے باعث میں یقینی پٹائی سے بچ گیا۔ قادری صاحب کے ان دونوں دھرنوں کے اختتام پر میں نے اپنے ایک دوست سے پوچھا کہ اتنے مطالبات روزانہ دہرانے کے بعد آخر میں محفوظ راستہ لے کر نکلتے ہوئے یہ اپنے کارکنوں کو کیسے فیس کرتے ہوں گے۔ انہوں نے کہا اس کے لیے ضروری ہے کہ لیڈر اس پہلوان کی طرح ہو جو کشتی ہارنے کے باوجود بڑی اکڑ کے ساتھ کھڑا ہو کے جیتنے والے کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہے آئندہ پوری تیاری کے ساتھ آنا کاکا۔۔

یہ علما بھی مطالبات کی بڑی فہرست کے ساتھ آئے مگر جاتے ہوئے صرف ایک کپ چائے داتا دربار مینجمنٹ کمیٹی کے چیئرمین اسحاق ڈار اور وزیر ریلوے کے ساتھ پینے کے بعد اس طرح گئے جیسے سکندر اس دنیا سے گیا۔

کیونکہ اس لمبی سی فہرست سے تو کچھ نہیں ملا مگر لگتا ہے کراچی میں بھتہ خوری بند ہونے سے ہونے والا نقصان داتا دربار مینجمنٹ کمیٹی کے چیئرمین نے پورا کردیااور علما سے کہا کہ اپنی گردن اونچی رکھ کر جانا اور باہر جا کے یہ بتانا کہ جیت عاشقوں کی ہوئی ہے۔۔۔اور بقول ہمارے دوست عاصم یاسین کے ۔۔ چار روز میں آٹھ ہزار سے زائد گالیاں دے کر مولانا حضرات اس شرط پر اٹھے کہ میڈیا فحاشی نہیں دکھائے گا۔

یہ بات ایسے ہی ہے جیسے نرگس فخری کسی کے فحش ہونے کی شکایت کرے۔۔

مذاکرات کے بعد واپس آ کر پھر وہی نعرے۔۔ فتح کا اعلان، ایک معاہدہ کی تقسیم جسے ماننے سے وزیر داخلہ نے انکار کردیا۔۔ اس کے بعد عین اپنے طاہر القادری اور عمران خان صاحب کی طرح یہاں سے تمام بڑے بڑے مولانا، مفتی اور کراماتی علماء بڑے کروفر سے گئے جیسے نواز شریف کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہہ رہے ہوں،

کاکا ۔۔ آئندہ جم کے تیاری کرنا۔۔۔نگس

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے