31مارچ نےدوبارمزیدآنا ہے.

کچی سے نویں جماعت تک ، پورے دس برس، ہر سال 31 مارچ کو دل کی حالت ایک جیسی ہوتی تھی۔ صبح اسکول جانے سے قبل ہی بچے، گلیوں میں یہ آوازہ لگاتے عازم سفر ہوتے تھے۔ ” جب نتیجہ نکلے گا، کوئی ہنسے گا، کوئی رو ئے گا، کیا خوب تماشہ ہو ئے گا، ماں، پٹے گی۔ پیو رو ئے گا۔ ” ماہ مارچ کا یہ آخری دن، اسکولوں میں ” پکے امتحانات” کے نتیجے کا دن ہوتا تھا اور پورا برس اسکول جانے اور بالاخر سالانہ امتحانات کی چھلنی سے گزرنے والے طلبا کا ” کچا چٹھا "اس دن سامنے آجاتا تھا۔

اگر میری یاداشت ساتھ دے رہی ہے تو یہ کوئی 30 ستمبر 2014 کے آس پاس کی بات ہے۔ شہر اقتدار میں عمران خان کا دھاندلی کے خلاف اور طاہر القادری کا سانحہ ماڈل ٹاون کے خلاف دھرنا جاری تھا۔ یاد نہیں یہ اخبارات کی ورق گردانی تھی یا انٹر نیٹ کی سائٹ گرادنی، ایک تحریر نظر سے گزری جس کے الفاظ کچھ اس سے ملتے جلتے تھے۔

"وہ 31 مارچ کا دن تھاجب پانچویں کلاس کے نتیجے کا اعلان ہونے والا تھا۔ بچے اسکول کے میدان میں نتیجے کا بے چینی سے انتظار کررہے تھے۔ حمدو ثنا کے بعد ہیڈ ماسٹر صاحب نے نتیجے کا باقاعدہ آغاز کیا۔ اساتذہ کو یقین تھا کہ ہر سال کی طرح اس سال بھی اسکول میں پہلی پوزیشن ” طاہر ” کی ہوگی مگر نتیجہ اس کے برعکس تھا۔ جھنگ شہر کے سب سے بڑے جاگیردار گھرانے کے اکلوتے چشم وچراغ پرویز عارف نے، جو کہ دو پیپرز میں غیر حاضر تھا، پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔ نتیجے ک اعلان سن کر اساتذہ بھی خاصے حیران تھے مگر ” اندر کی بات ” سمجھ چکے تھے۔ طاہر گھر پہنچا تو گال پر آنسووں کے قطرے تھے۔ ماں نے وجہ پوچھی تو جذباتی انداز میں بولا،” ماں ! میں یہ نظام نہیں چلنے دونگا”۔ کل کا یہ طاہر آج کا طاہر القادری ہے جو عدل و انصاف کے اس قاتل ” جاگیردارانہ نظام” کے خاتمہ کے لئے گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے ہزاروں پاکستانیوں کے سنگ اسلام آباد کی سڑکوں پر بیٹھا ہے۔”

مجھے یاد ہے اس تحریر کے منظر عام پر آنے کے کوئی 20 دن بعد، قائد انقلاب جناب طاہر القادری، اسلام آباد کے ڈی چوک سے دھرنا ختم کرکے انقلاب کے ایک نئے سفر پر روانہ ہوگئے تھے۔ عمران خان نے اپنا دھرنا جاری رکھا تھا مگر 16 دسمبر 2014 کو آرمی پبلک اسکول میں ہونے والے سانحے کے بعد انہیں بھی دھرنا ختم کرنا پڑا تھا۔ یوں 13 اگست 2014 کو شروع ہونے والا طاہر القادری کا دھرنا 66 ویں روز جبکہ عمران خان کا دھرنا 126 ویں روز اپنے اختتام کو پہنچا تھا۔ لانگ مارچ سے شروع ہونے والے ان دھرنوں نے نہ صرف پاکستان کی سیاسی تاریخ بلکہ ڈی چوک پر بھی "انمٹ نقوش” چھوڑے۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے ڈی چوک میں ممتاز قادری کے حامیوں کا چار روز سے جاری احتجاجی دھرنا حکومت کے ساتھ” کامیاب” مذاکرات اور ایک سات نکاتی "معاہدے یا مفاہمت” کے نتیجے میں، 31 مارچ کا سورج طلوع ہونے اور رات 12 بجے "تاریخ بدلنے” سے پہلے ہی اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔

اس معاہدے یا مفاہمت کے مطابق تعزیرات پاکستان کی توہین مذہب سے متعلق دفعہ دو سو پچانوے سی میں کوئی ترمیم زیر غور ہے اور نہ ہی اس میں کوئی ترمیم کی جائے گی۔

معاہدے یا مفاہمت کی رو سے حکومت پرامن احتجاج کرنے والے گرفتار افراد کو فورا رہا کردے گی۔

اس کے علاوہ توہین رسالت کے مقدمات میں سزا یافتہ کسی شخص کو کوئی رعایت دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

معاہدے یا مفاہمت کے مطابق فورتھ شیڈول کی فہرست میں نظر ثانی کا عمل جاری ہے اور اس میں بے گناہ افراد کے نام خارج کردیئے جائیں گے۔

معاہدے یا مفاہمت کے تحت علما ئے کرام پر درج مقدمات کی واپسی کا بھی جائزہ لیا جا ئے گا۔

معاہدے یا مفاہمت کے مطابق میڈیا پر فحش پروگراموں کی روک تھام کے لئے علما ئے کرام ثبوتوں کے ہمراہ پیمرا سے رجوع کرینگے۔

معاہدے یا مفاہمت کے آخری نکتے کے تحت ملک میں شریعت کے نفاذ کے لئے سفارشات مرتب کرکے وزارت مذہبی امور کو پیش کی جائیں گی۔

اس معاہدے یا مفاہمت کے بعد دھرنے کی قیادت کرنے والے سنی تحریک اور دیگر مذہبی جماعتوں نے رہنماوں نے مظاہرین کو پرامن طور پر منتشر ہونے کی ہدایت کردی اور یوں دھرنا ختم ہوگیا۔ اندر کی بات یہ ہے کہ دھرنے کی قیادت اور حکومت دونوں ہی مذاکرات کا ” نتیجہ ” ہر صورت 30 مارچ کو ہی نکالنا چاہتے تھے تاکہ یہ نتیجہ 31 مارچ کو اسکولوں سے نکلنے والے امتحانی نتیجے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے شور۔ ” جب نتیجہ نکلے گا، کوئی ہسے گا، کوئی رو ئے گا، کیا خوب تماشہ ہو ئے گا۔ ماں، پٹے گی۔ پیو، رو ئے گا۔ ” کے شور میں کہیں دب نہ جا ئے۔

سنی تحریک والے قادری دھرنے کی قیادت کا دعوی ہے کہ انہوں نے حکومت سے "معاہدہ” کرکے اپنے تمام مقاصد حاصل کر لئے ہیں جبکہ حکومت کا موقف ہے کہ 4 دن کا دھرنا دینے والوں سے کوئی معاہدہ نہیں ہوا بلکہ ” مفاہمت” ہوئی۔ یہ بالکل ویسے ہی ہے جیسے، 126 دن کا دھرنا دینے والوں سے دھاندلی نہیں ” بے ضابطگی ” ہوئی تھی۔ ادھر حکومت کے مخالفین پی ٹی آئی والوں نے پھبتی کسی ہے کہ 126 دن کے دھرنے کو گالیاں نکالنے والے، 126 گھنٹے بھی گالیاں سن نہ پائے۔

واقفان حال کا دعوی ہے کہ جلوس راولپنڈی کا فیض آباد پار کرکے، اسلام آباد پہنچا تو ،ماں، سمجھتی رہی کہ ” منںڈے ” کو امتحان کی تیاری۔ پیو، نے کرائی ہے۔ پیو، کا خیال تھا کہ ” منڈے ” کی تیاری کے پیچھے۔ ماں، ہے۔ اور یوں ” ماں پیو ” کی غلط فہمی کے نتیجے میں منڈا ” اسٹیج ” کے نزدیک جا پہنچا۔ ویسے دھرنے کا نتیجہ ماں، پیو کی خواہشات کے عین مطابق ہی نکلا ہے۔ اگرچہ یہ پتہ نہیں چلا کہ دھرنے کے پیچھے ” ماں” تھی یا ” پیو”۔ مگر ایک بات طے ہے کہ ابھی ” پکے امتحانات ” کے نتیجے کا دن یعنی 31 مارچ، نواز حکومت کے دور میں، 2 دفعہ مزید آنا ہے اور اس 4 روزہ دھرنے کے نتیجے پر واقعی ہی ایک دن "خوب تماشہ ہو ئے گا” اور ” ماں، پٹے گی۔ پیو، رو ئے گا "۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے