اک خدنگ سی خبر

ممتاز صاحب چلے گئے۔ کہاں چلے گئے۔ وہاں چلے گئے جہاں ہم سب نے بھی جانا ہے۔ ایسا کیوں نہیں ہوسکتا کہ ساتھ رہنے والے ساتھ ہی چلے جایا کریں۔ زندگی بھر مہربان رہنے والے کا جانا ظلم کیوں بن جاتا ہے۔ یہ کیسا دستور ہے، کیسا اندھیر ہے۔

دل ٹھہر ٹھہر گیا، جاں بکھر بکھر گئی
اک خدنگ سی خبر، روح میں اتر گئی

ڈاکٹر ممتاز صاحب سے میرے تعارف کا ذریعہ تو برادر خورشید ندیم بنے مگر اسکی بہت مضبوط بنیاد سلیم احمد مرحوم سے انکا تعلق خاطر ھی بنی۔

خوش لباس، خوش اطوار، خوش گفتار، خوش قامت، خوش ذوق، خوش دل اور خوش مزاج، ممتاز نہ ہوتے تو کیا ہوتے۔

سیاسیات و مذھب سے لیکر شاعری و ادب تک، ھر علم اور ھر شعبہ سے انکا لگاؤ فطری اور خُلّاقانہ تھا۔ تدریس کے جدید انداز سے آشنائی اور تحقیق کے میدان کی شناوری انکے وہ اوصاف تھے جو انہیں طلبہ اور اسکالرز میں بیک وقت مقبول بناتے۔ اپنے پراثر طریق گفتگو اور حلم کے ساتھ علم کے امتزاج نے انکی شخصیت کو وہ جازبیت عطا کررکھی تھی جو انہیں شمع محفل بنائے رکھتی۔ اور ایسا کیوں نہ ھوتا کہ آخر کو جناب اُس مدرسہء سلیم احمد کے فارغ تھے جہاں سے یہ بہرہ وافر ھر اس شخص کو ملا جس کا وہاں سے گذر بھی ھوا۔

ڈاکٹر نجیبہ عارف کے الفاظ میں "ڈاکٹر ممتاز احمد اعلی علمی و ادبی ذوق کے حامل، انتہائی نفیس اور شائستہ انسان تھے۔ ایسی کڑھی ہوئی، مہذب اور ہمہ جہت شخصیات اب ہمارے کارخانے میں نہیں ڈھلتیں۔ وہ قومی اور بین الاقوامی مسائل پر گہری نظر رکھتے تھےاور اسلامی دنیا کو معاصر جدید زندگی سے ہم آہنگ دیکھنا چاہتے تھے۔”

یارِ من عزیز ابن الحسن نے لکھا کہ "ممتاز صاحب کا میدان تو علم سیاسیات تھا مگر وه ان تهذیبی لوگوں میں سے تھے جن کی دلچسپیاں کسی ایک دائرے میں بند نهیں هوتیں. ادب شاعری فنون لطیفه اور کلچر ممتاز صاحب کی نه صرف خصوصی دلچسپی کے شعبے تھے بلکه انکی شخصیت اور مزاج کا پورا قوام ان چیزوں سے ملکر بنا تھا”

سچ تو یہ ہے کہ وہ میری زندگی میں آنے والے شاید واحد پاکستانی تھے جنکے ساتھ کام کرکے لطف آتا تھا۔ انہوں نے کبھی اپنی رائے مسلط تو کیا بلند آہنگ میں بیان کرنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ ہمیشہ مجھ پہ بھرپور اعتماد کا مظاہرہ کیا۔ یہ خوبی ہمارے معاشرہ میں ناپید ہے، یہاں ہر شخص خود کو ہرفن مولا سمجھتا ہے۔

ابھی پچھلے ہفتے–حسب عادت– سرخوشی کے عالم میں ملنے گیا۔ دفتر میں اکیلا پاکر مسرور ہوا کہ بھرپور ملاقات رہے گی۔ سلام سن کر سر اٹھایا اور ایک طویل گرمجوش "اخاہ” کہتے ہوئے خلاف توقع معانقہ سے استقبال کیا۔ خوب گفتگو رہی، آنے والی کتابوں پر بات ہوتی رہی۔ اپنی طبعیت کا حال بیان کرتے رہے۔ کہنے لگے "ڈائلسز کے دوران ڈاکٹرز بہت پانی نکال لیتے ہیں جسم سے، اور زیادہ پانی پینے بھی نہیں دیتے”۔ میں متاسف بےبسی سے سنتا رہا اور کمزور، زردی کھنڈے چہرے کو دیکھتا رہا۔

اُس روز کسی نامعلوم داخلی تحریک کے زیر اثر میں نے پہلی بار کھل کران سے اپنی انسیت و شیفتگی کا الفاظ میں اظہار کیا۔ گذشتہ برسوں کی رفاقت کے نہایت خوشگوار تاثر کو زبان دی تو جیسے لمحہ بھر کو کھِل اٹھے ہوں مگر فوراََ ہی کسر نفسی کا اظہارکرتے ہوئے شکریہ ادا کرنے لگے۔

اٹھتے ہوئے کہنے لگےآجکل تیرتھ رام فیروزپوری کی تحریریں پڑھنے کو من کررہا ہے، میں نے فراہم کرنے کا وعدہ کیا اور اجازت لے کر واپس آگیا۔

میں اکثر مصر رہتا کہ کبھی آپکے گھر آکر سلیم احمد کے ساتھ گذرے وقت کا تذکرہ سنوں گا اور ریکارڈ کروں گا، ہمیشہ آمادگی اور خوشی کا اظہار کرتے مگر وہ وقت کبھی نہ آسکا۔ اب وہ خود سلیم احمد کے پاس چلے گئے۔

انکی وفات سے ایک روز قبل میں لاہور میں احمد جاوید صاحب کے گھر ملنے گیا تو سلیم احمدکا خوب ذکر رہا۔میں نے کہا اب انکی مجلس کے تین ہی افراد زندہ رہ گئے ہیں، آپ، ممتاز صاحب اور سجاد میر، کیا ہی اچھا ہوکہ آپ تینوں اس حوالے سے اپنی یادداشتیں قلم بند کردیں۔ جاوید صاحب نے آمادگی کا اظہار کیااور ممتاز صاحب کی صحتمندی کے لئے دعا کی۔کیا معلوم تھا کہ ایک روز بعدہی ان تین میں سے بھی ایک فرد کم ہوجائے گا۔

جنازے میں سلیم منصور اور جنید ممتاز کو اشک بار دیکھا تو منہ موڑ کر ہی خود کو کمپوز رکھ پایا۔ سجاد میر کو حوصلہ مند دیکھ کرمیں نے بھی حوصلہ پکڑا اور آخری دیدار کو آگے بڑھ گیا۔ زندگی سے بھرپور، شگفتہ اور آخری دن تک متحرک انسان کو یوں دیکھنا ایک گھائل کردینے والا تجربہ تھا۔ شکیبائی اور گریہ کناں دل، کہ دو منہ زور گھوڑے تھے جو کسی مرکز گریز قوت کے زیراثر میرے وجود کو چیرتے ہوئے مخالف سمت کو دوڑے جاتے تھے۔

دلِ ناصبور کہتا ہے خورشید ندیم!
آٹھ برس پہلے بھی تم نے ملوایا تھا، اب پھر ملوادو، ایک بار،
صرف ایک بار

……………….
[pullquote]کالم نگار معروف اشاعتی ادارے ایمل پبلیکیشنز کے سربراہ ہیں .[/pullquote]

Late Dr Mumtaz Ahmad, sharing his opinion about Emel Publications.

Posted by EMEL Books on Thursday, March 31, 2016

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے