انفرادی اصلاح کا جھوٹا نظریہ

انسان دوسرے جانداروں سے مختلف کیسے ہے؟
یہ وصف “شعور” ہے! انسان کے اندر سوچنے کی حِس اِسے دوسرے جانداروں سے مختلف اور افضل بناتی ہے۔ یہاں سوال یہ کہ انسان اپنا شعور کہاں سے حاصل کرتا ہے؟ سوچنا یہ ہے کہ انسان سوچ لاتا کہاں سے ہے؟ کیا انسان خود اپنے انفرادی وجود کے ساتھ اپنی سوچ یا اپنے شعور کا تعین کرتا ہے؟ یا اس کے برعکس انسان کا سماجی وجود اس کے شعور کا تعین کرتا ہے؟ بات یہ ہے کہ ایک بندہ کبھی اپنے شہر سے باہر ہی نہیں گیا، اسکی تو کل کائنات ہی اُس کا شہر ہو گی۔ کیا آپ اُن گلہ بانوں کی سوچ کا اندازہ کر سکتے جو پہاڑوں سے بھیڑ بکریاں چرانے یہاں میدانی علاقے میں آتے ہیں، آپ اِس دنیا کو کسی اور نظر سے دیکھتے ہو جبکہ یہ خانہ بدوش دنیا کو کسی اور نگاہ سے دیکھتے ہیں، لہذا آپ کے اردگرد کا سماجی ڈھانچہ ہی آپ کے شعور آپکی سوچ کا تعین کرتا ہے۔ سوچ انسان کے تجربات کے دائرے تک محدود ہوتی ہے۔ یہ بات ہم بہت ہی کم جانتے ہیں کہ قدیم انسان کیسے سوچتا ہو گا۔ لیکن یہ جانتے ہیں کہ کن چیزوں کے بارے میں وہ سوچ ہی نہ سکتا تھا۔

ہماری انفرادی سرگرمیوں کی آزادی کی حدود کیا ہیں اور دوسری طرف اس حقیقت کا بھی علم ہونا چاہیے کہ اپنی انفرادی سرگرمیوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے سازگار کون سے سماجی حالات کا پہلے سے موجود ہونا ضروری ہوتا ہے؟

میری اِس سوچ کے مکتبی مخالفین عموماً سُست اور بَد بِین لوگ ہیں کیونکہ وہ نرم و ملائم حالات میں آرام دہ کرسیوں پہ نیم دراز اور سیرشکم ہیں. اور وہ اِن لوازمات میں سے انفرادی سرگرمی کو برآمد کر رہے ہیں۔

لوگ خود کو جس "طریقے” سے منظم کرتے ہیں کہ وہ اپنا روزگار حاصل کر سکیں، اُس طریقے سے لوگوں کا آپس میں منظم ہونا "پیداواری تعلقات” کہلاتا ہے۔ اِنہی پیداواری تعلقات کی بنیاد پہ ہی "سماجی نظام” بنتا ہے۔ یہی سماجی نظام وہ بنیاد مہیّا کرتے ہے جو کسی بھی انسانی شعور کا تعین کر رہا ہوتا ہے۔ سماج کے جس طبقے کی ملکیت اور اختیار میں "ذرائع پیداوار” ہوتے ہیں، وہ معاشرے کا حاکم ہوتا ہے۔ زرائع پیداوار کی ملکیت کے سبب محنت کش طبقہ اپنی جان حکمران طبقے کے مفادات کے لئے مارنے پر مجبور ہوتا ہے. محنت کش طبقہ سے اتنی "فاضل پیداوار” تیار کروائی جاتی ہے کہ حکمران طبقے کی طاقت میں مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے- اِنہی بنیادوں کے اوپر سارے کا سارا سماج تشکیل پاتا ہے۔ اِسی بنیاد پہ سماج کا خاص سیاسی نظام کی تشکیل پاتا ہے۔ اِسی بنیاد پہ فیصلہ ہوتا ہے کہ کون سا طبقہ "مختارِ اعلیٰ” ہو گا اور کون سا طبقہ رعایا ہو گا۔ مختصر یہ کہ پیداواری تعلقات کی بنیاد پہ ہی ریاست کی مخصوص شکل تیار ہوتی ہے-

انسانی شعور یا انسانی رویہ قطعاً موضوعی عنصر نہیں ہے بلکہ یہ ایک معروضی معاملہ ہے- انسانی کردار کا تعین فرد اور حالات کے باہمی تعلق سے کیا جاتا ہے۔ افراد مکمل طور آزاد ہوتے ہیں، نہ ہی مکمل طور پر حالات کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ کسی بھی سماج کے ارتقا کے معروضی اسباب ہوتے ہیں جن کے باہمی تعلق سے سماجی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی ہیں. ایک وضاحت بہت اہم ہے کہ میں صرف معاشی رشتوں کو ہی سماجی ارتقا کا سبب قرار نہیں دے رہا بلکہ مذہب ،آرٹ، ثقافت، خاندانی ڈھانچوں جیسے عوامل کے کردار کو بھی تسلیم کرتا ہوں۔ مگر معاشی رشتوں اور ذرائع پیداوار کا کردار بہرحال فیصلہ کن ہوتا ہے جن کی بنیاد پر ریاست جیسے بالائی ڈھانچے تعمیر ہوتے ہیں اور اخلاقیات متعین ہوتی ہیں۔

کیا کسی بھی معاشی نظام کی ترقی یا تنزلی سماج کے ہر پہلو کو متاثر نہیں کرتی؟ کیا سرمایہ داری کے بحران نے ہر سماجی رشتے کو مسخ نہیں کیا؟ کیا آج سماجی معاونت اور اجتماعی شعور سے وابستہ انسانی احساسات کی جگہ انفرادیت، لالچ، مفاد پرستی اور حرص کو نہیں دی جا رہی ہے؟ کیا افراد سماج، فطرت اور خود سے بیگانہ نہیں ہے؟ ’’بھیڑ میں بھی تنہائی‘‘ کا احساس ہوتا ہے۔ باہر سڑکوں پہ چلتی ٹریفک دیکھ لیجیے، کوئی کام نہ بھی ہو تو ہر کسی کو ہر وقت جلدی ہے. جہاں کوئی رشتہ، کوئی رابطہ اور تعلق بھی نہیں ہے وہاں بھی دشمنیاں پنپ چکی ہیں۔ بہت گہری دوستیاں بھی معاشی عوامل ہی کے زیر اثر ایک پل میں توڑ دی جاتی ہیں. دھوکے اور فریب کی وارداتیں تو معمول سی لگنے لگی ہیں۔ کیا آج ہر شخص انفرادی بقا کی جنگ میں سب کو کچل کر آگے بڑھنے میں مصروف نہیں ہے؟ ایک دوسرے سے محبت اور یقین جیسے لطیف جذبات میں بھی نفرت اور شک کا گھن لگ چکا ہے۔ اولاد اور والدین کے رشتے کو بھی اس نظام نے کچے دھاگے سے لٹکا دیا ہے۔ آخر ایسا کیوں؟ کیا یہ حسد، نفسانفسی، خودغرضی، عداوت اور سازش وغیرہ انفرادی عناصر نہیں ہیں؟ ’’انفرادی اصلاح‘‘ کا راگ الاپنے والوں کے پاس ان رشتوں کی تنزلی کی کیا وضاحت ہے؟

معاشرے، انسانوں کے آپسی رشتوں اور رویوں کی تشریح انفرادی حوالے سے نہیں کی جا سکتی بلکہ معاشرے پہ حاوی معاشی و سماجی نظام کے حوالے سے کی جانی چاہیے۔ یہ معاشی نظام کے بالواسطہ و بلاواسطہ اثرات ہیں جو کسی "فرد” کو سماج و انسان دشمن بناتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ میں فرد کی انفرادی اصلاح کے نظریے کا قائل نہیں ہوں۔ آپ رائج حالات کے اندر رہ کر ایک حد تک ہی لوگوں کی اصلاح کر سکتے ہیں۔ لیکن نظام کا کردار حاوی ہوگا جو مجموعی طور پر معاشرے کے ہر فرد پر اثرات ڈالے گا۔ آپ بچوں کی پرورش اور تربیت پر انفرادی طور پر زور لگا کر ظاہری طور پر مہذب نظر آنے والے روبوٹ تو بنا سکتے ہیں جو ہر راہ چلتے انکل کو سلام بھی کرتے ہیں، بڑوں کا احترام بھی کرتے ہیں، لیکن سکول، گلی محلے، نصاب، میڈیا وغیرہ کے سماجی اثرات پر قابو نہیں پا سکتے۔ بسوں اور ویگنوں میں ایک ایک روپے پر لڑائیاں کیسے ختم ہو سکتی ہیں؟ لین دین میں ہیرا پھیریاں کوئی ’’انسانی فطرت‘‘ تو نہیں ہیں۔

ایک زہریلے عدم تحفظ اوربے یقینی کے احساس نے معاشرے کے ہر فرد کو جکڑا ہوا ہے جس کے نتیجے میں لوگ اِن غیر انسانی رویوں کے عادی ہو گئے ہیں۔ سماجی تاریخ گواہ ہے کہ ایک معاشی نظام زوال کا شکار ہوتا ہے تو سماج کا ہر پہلو زوال پذیر ہو جاتا ہے۔ یہ اس نظام کی ناکامی، متروکیت اور تاریخی استرداد کی علامت ہوتی ہے۔ ان حالات میں نہ کوئی بڑا ادب تخلیق ہو سکتا ہے نہ عظیم فن پارے سامنے آتے ہیں۔ کیونکہ اس سب کے لئے فرصت، ذہنی آسودگی اور رجائیت بنیادی شرائط ہیں۔ ایک رجعتی عہد میں گہری مایوسی اور بد گمانی کا راج ہوتا ہے ۔ اچھائی، برائی، عظیم اور گھٹیا پن کے معنی الٹ میں بدل جاتے ہیں ۔ سوچ میں تاریکیاں ور بصیرت میں ویرانی ہوتی ہے۔ انفرادی ایمانداری اور فرض شناسی کی باتیں بظاہر تو بہت رنگین اور واہ واہ کروانے کیلیے درست ہیں مگر اندر سے بہت کھوکھلی ہیں

– آپ اگر چاہتے ہیں کہ لوگ ایماندار اور فرض شناس بن جائیں تو سماج میں سے زہریلا عدم تحفظ اور بے یقینی کا خاتمہ کیجیے- سماجی نظام کو بدلیے، افراد بدل جائیں گے- سماجی ڈھانچے کو بدلنے کیلیے معاشی ڈھانچے کو بدلنا ہو گا-

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے