راولپنڈی میں ٹیچر کو معصوم طالبہ پر وحشیانہ تشدد

تعلیمی ادارے جو پہلے حصول علم کا مرکز تھے اب صرف کاروبار بن کر رہ گئے ہیں۔۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے علاقہ ترنول سے کچھ ہی فاصلے پر ایک ایسا ہی کاروباری مرکز اقرا کری ایٹوو سکول کے نام سے بنایا گیا ہے۔۔ جہاں پڑھنے والی نبیہہ پر بےرحمانہ تشدد کیا گیا۔۔ اس واقعے کی تفصیلات کے لیے جب میں نے نبیہہ کے والد یامین صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ اقرا کری ایٹیوو نامی اس سکول میں پڑھنے والی تین سالہ ننھی نبیہہ نرسری کلاس کی سٹوڈنٹ ہے۔۔ کچھ روز پہلے نبیہہ جب سکول سے آئی تو خوف سے کانپ رہی تھی اور مسلسل رونے کے باعث سخت بخار میں بھی مبتلا تھی۔
والدہ کے پوچھنے پر پتہ چلا کہ تین سالہ نبیہہ نے اپنی کلاس ٹیچر کے لیے کوئی نامناسب لفظ استعمال کیا۔۔ جس پر ٹیچر نے طیش میں آ کر نہ صرف بچی کو زدوکوب کیا بلکہ سب بچوں سے شیم شیم کے نعرے بھی لگوائے۔۔ اور اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ اس کے بعد بچی کو واش روم میں بند کر کے ڈنڈے بھی لگائے گئے۔۔

Zara 2

بچی کے والد محمد یامین صاحب نے بچی کی تصاویر ارسال کی۔ بچی کے والدین سے ملنے سے پہلے سکول انتظامیہ سے ملاقات کے لیے میں سکول گئی وہاں جا کر پرنسپل اور آنر سے ملاقات ہوئی۔۔ محترمہ پرنسپل صاحبہ سے جب اس معاملے کے حوالے سے بات چیت کی تو کہنے لگیں کہ یہ ہمارے سکول کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔۔ بچی نے بدتمیزی کی جس پر صرف تھپڑ لگایا گیا تھا۔ جس بات کو انا کا مسئلہ بناتے ہوئے بچی کے والد نے ہم پر مار پٹائی کا الزام دھر دیا۔۔ میں نے کہا اگر یہ سب آپ آن کیمرہ کہہ دیں تو کہنے لگیں کہ ابھی آفس میں کوئی میل موجود نہیں ہے لہذا آپ لوگ آدھے گھنٹے کا ٹائم دیں سکول میں میرے پارٹنر عماد صاحب پہنچ جائیں گے اور وہی آن کمیرہ بھی بات کریں گے۔۔

خیر ہم لوگ بچی کے گھر پہنچے۔۔ تین سالہ نبیہہ کو دیکھا چھوٹی سی بچی جو ٹھیک سے لمبی چوڑی بات بھی نہیں کر سکتی تھی ایک طرف بیٹھی تھی۔۔ میرے بلانے پر قریب آئی میں نے پوچھا آپ کو چوٹ کیسے لگی نم آنکھوں سے کہنے لگی مجھے ٹیچر نے مارا تھا میں نے گندی بات کی تھی۔ میں نے پوچھا کہ کس طرح مارا تھا کیا تھپڑ مارا تھا؟ تو کہنے لگی نہیں ٹیپ والے ڈنڈے سے مارا تھا میں نے کہا آپ نے سوری کرلینا تھا اگر کوئی غلط بات کر دی تھی تو۔۔ وہ کہنے لگی میں نے اشی تائم شوری بھی کیا تھا مجھے سب سے شیم شیم بھی کروائی تھی۔۔ اسی سکول میں نبیہہ کی دو بہنیں بھی زیر تعلیم تھی میں نے ان سے پوچھا کہ کیا معاملہ تھا تو وہ بتانے لگی کہ ٹیچر نے نبیہہ کا منہ اتنے زور سے دبایا تھا کہ اس سے کھانا بھی نہیں کھایا جا رہا تھا۔۔

بچی کے والد بتانے لگے کہ جب وہ بات کرنے سکول انتظامیہ کے پاس گئے تو وہ بجائے بچی کو اس قدر مارنے پر شرمسار ہونے کے بجائے کہنے لگے کہ مارا ہے پھر۔۔ بچی بدتمیزی کر رہی تھی۔۔ جو کرنا ہے کر لو۔ خیر یامین صاحب سے بات چیت کے بعد ہم لوگ دوبارہ سکول گئے تاکہ عماد صاحب سے اس معاملے پر بات چیت کی جائے تو سکول کے آفس کے دروازے بند تھے۔۔ میں نے محترمہ پرنسپل صاحبہ کےنمبر پر کال کی اور ان کو یاد دہانی کروائی کہ ہمیں آدھے گھنٹے بعد آنے کا کہا گیا تھا تو محترمہ کہنے لگی کہ عماد صاحب کسی میٹنگ میں ہیں وہ نہیں آ سکیں گے اور میں خود سے اس معاملے پر بات چیت نہیں کر سکتی۔۔ میں نے کہا کہ ہم عماد صاحب کی میٹنگ ختم ہونے کا انتظار کر لیتے ہیں مگر محترمہ نے کہا کہ انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے وہ نہیں آ پائیں گے۔۔

سوچنے کی بات یہ ہےکہ جب اساتذہ اس قدر شدت پسندی پر اتر آئیں گے کہ بچوں کو غلطیوں پر سمجھانے کے بجائے تشدد کا نشانہ بنانے لگیں گے تو ہم کیسے یہ توقع رکھیں کہ اچھی اور متوازن سوچ رکھنے والے شہری سامنے آئیں گے پھر تو معاشرے میں راواداری اور مثبت رویے کی توقع عبث ہے۔۔استاد کا درجہ بلاشبہ ماں باپ کی طرح بےحد بلند ہے جو انسان کی تعلیم و تربیت کرتے ہیں اور معاشرے کا بہترین شہری بناتے ہیں۔۔ مگر اس طرح کا رویہ رکھنا کسی طور مناسب نہیں کہ بچے خوف کے باعث سکول جانے سے ہی گریزاں ہونے لگیں۔۔ اس سارے معاملے میں بچی پر بے رحمانہ تشدد تو تکلیف دہ ہے ہی مگر افسوس ناک بات یہ بھی ہے کہ بچی کی بڑی دو بہنوں نے بھی اس سکول میں جانے سے انکار کر دیا اور یوں تینوں بہنوں کا قیمتی تعلیمی سال بھی ضائع ہو گیا ہے۔۔ بچوں کی تعلیم و تربیت کے نام پر تشدد کرنا اور فریسٹریشن نکالنا انتہائی نامناسب رویہ ہے۔۔ والدین کا بھی فرض ہے کہ سکول میں داخلہ کروا کر یہ مت سمجھیں کہ کام پورا ہو گیا ہے بلکہ سکول کا ماہانہ وزٹ ضرور کریں اور کلاس ٹیچر کے ساتھ رابطہ رکھیں اور بچے کی رپورٹ لیتے رہیں تاکہ بچے پر بے جا تشدد جیسے واقعات نہ ہوں۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے