پشاور میں بھتہ خوری کے خاتمے کے لیے کابل سے مدد مانگنے کا فیصلہ

پشاور: خیبر پختونخوا اور فاٹا کی ایپکس کمیٹی نے پشاور میں بھتہ خوری کی بڑھتی وارداتوں کے خلاف کابل سے مدد لینے کا فیصلہ کر لیا۔

ایپکس کمیٹی نے ہفتہ کو ایک اجلاس میں طے کیا کہ بھتہ خوری میں استعمال ہونے والی افغان موبائل فون سموں کو بلاک کرنے کیلئے کابل سے تعاون مانگا جائے گا۔

آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی سربراہی میں ہفتہ کویہاں کور ہیڈ کواٹرز منعقدہ اجلا س میں خیبر پختونخوا کے گورنر اقبال ظفر جھگڑا، وزیر اعلی پرویز خٹک، آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر، پشاور کے کور کمانڈر اوردوسرے سینئر سویلین اور عسکری حکام نے شرکت کی۔

آئی ایس پی آر کے ایک جاری بیان کے مطابق، اجلاس کے دوران شمالی وزیرستان کے علاقے شوال میں جاری فوجی آپریشن، صوبے بھر میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر کارروائیوں، آئی ڈی پیز کی واپسی اور طورخم پر بارڈر مینجمنٹ پر تفصیلی جائزہ لیا گیا۔

بیان میں بتایا گیا کہ شرکا نے شوال آپریشن کے آخری مرحلے اورانٹیلی جنس کی بنیاد پر کارروائیوں پر اطمینان کے ساتھ ساتھ طورخم سمیت تمام کراسنگ پوائنٹس پر موثربارڈر مینجمنٹ یقینی بنانے کا عزم ظاہر کیا۔

پاک-افغان سرحدی علاقوں سے پشاور میں بھتے کیلئے آنے والی ٹیلی فون کالوں پر غور کے بعد اجلاس میں طے پایا کہ پاکستانی علاقوں میں تمام غیر قانونی کمیونیکیشن ٹاورز بند کیے جائیں گے۔

اس مسئلے پر قابو پانے کیلئے ایک اعلی سطحی وفد مدد مانگنے کابل جائے گا۔

بیان میں مزید بتایا گیا کہ جنرل راحیل نے فاٹا اور خیبر پختونخواکےلوگوں کے حوصلوں کی تعریف کرتے ہوئے قبائلی علاقوں کی از سر نو تعمیر اور سماجی و اقتصادی بنیادی ڈھانچہ بحال کرنے کا عزم بھی دہرایا۔

ایک سیکیورٹی افسر نے ڈان کو بتایا کہ اجلاس کے ایجنڈے میں بھتہ خوری کا مسئلہ غالب رہا کیونکہ پشاور سےماہانہ تقریباً ایک کروڑ روپے بھتہ وصول کیا جا رہاہے۔

انہوں نے بتایا کہ کابل نے بھتہ خوری میں استعمال ہونے والی افغان سموں کی تفصیلات فراہم کرنے سے انکار کر دیا تھا جبکہ پی ٹی اے اور وزارت داخلہ نے ایسی فون کالیں بلاک کرنے کی پوری کوشش کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک سم سے کئی کالیں کی جا رہی ہیں جبکہ زیادہ تر ایسی کالوں کے پیچھے کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے علیحدہ ہونے والے دھڑے جماعت الحرار کا ہاتھ ہے۔پنجاب میں بھی ایسی کالیں کی جا رہی ہیں۔

حکام کاماننا ہے کہ بھتہ خورسرحدی علاقوں میں سرگرم ہیں کیونکہ پشاور میں اکثر بھتہ متاثرین نے قبائلی علاقوں میں رقم پہنچائی۔

پولیس کے مطابق، گزشتہ کچھ سالوں میں بھتہ خوری کے300 سے زائد مقدمے درج کیے گئے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے