مجھے ذوالفقار علی بھٹو کیوں یاد آرہے ہیں

ذوالفقار علی بھٹو سے عوام کے رومانس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں بلا شبہ وہ پاکستانی سیاست کا ایک روشن چہرہ تھے ان کی کرشمانی شخصیت اور غریب عوام سے وابستگی نے ایک عرصے تک پاکستانی عوام کے اپنے سحر میں مبتلا کئے رکھا۔ لیکن مجھے ذوالفقار علی بھٹو بحثیت وزیرخارجہ اور پاکستان کی خارجہ پالیسی کو نئی سمت عطا کرنے کے حوالے سے ان دنوں بے حد یاد آرہے ہیں.

وہ پاکستان کے ان چند سیاستدانوں حکمرانوں میں سے تھے جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے مالا مال تھے۔ بین الاقوامی سیاست کا ادراک، سیاسی مفکرین اور عالمی قائدین سے ان کے ذاتی اور فکری روابط تھے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ قوم پرست تھے۔

1970 کی قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر سردار شیر باز مزاری اپنی کتاب میں ذوالفقار علی بھٹو سے پہلی ملاقات کا حوالہ کتاب ہی دیتے ہیں۔ ایک کتاب جو شیر باز مزاری نے کراچی کی معروف کتابوں کی دوکان میں مخصوص کروا رکھی تھی وہ بھٹو لے آڑے اور اپنا فون نمبر دے گئے کے شیر باز مزاری کو کہو کہ وہ کتاب میں پڑھ رہا ہوں مجھ سے لے لیں۔

ذوالفقار علی بھٹو خارجہ تعلقات میں جنم لینے والے عالمی اور علاقائی بحرانوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے صرف پالیسی سطح پر ہی نہیں بلکہ اسے عملی جامعہ پہنانے کا فن بھی جانتے۔

[pullquote]اس سلسلےمیں انڈیا کے 1974 میں ایٹمی صلاحیت کے اظہار اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھنے اور اسے عملی شکل دینے کی مثال دی جاسکتی ہے۔ بدترین حالات میں شملہ معاہدہ بھارت کی قید میں فوجیوں کی واپسی۔بنگلہ دیش کو تسلیم کرنا۔ اسلامی ممالک کی تنظیم میں قائدانہ کردار ادا کرنا۔ چین سے برادرانہ تعلقات کی بنیاد رکھنا ان کی کامیاب خارجہ حکمت عملی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔[/pullquote]

آج جب پاکستان خارجہ سطح پرست سے بحرانوں کا سامنا کر رہا ہے تو مجھے ذوالفقار علی بھٹو یاد آتے ہیں۔ آج ہماری افغان پالیسی اس سمت سے باہر نہیں نکل پا رہی جس سمت میں جنرل ضیا اور جنرل حمید گل جغرافیائی گہرائی کے نام پر پاکستان کو افغانستان کی دلدل میں دھکیل گئے۔

روس افغانستان سے نکل گیا، امریکی افواج مرحلہ وار انخلا پر عمل پیرا ہیں مگر ہم افغان پالیسی کے بھنور میں پاکستان پر عمل پیرا ہیں مگر ہم افغان پالسی کے بھنور میں پاکستان کی سلامتی کو شدید خطرات سے ہمکنار کرنے کے باوجود افغانستان سے متعلق نئی حکمت عملی ترتیب دینے کو تیار نہیں، ابھی چند روز بیشتر افغانستان کی کرکٹ ٹیم نے پاکستان کے دورہ کی سیکورٹی وجوہات کی بنا پر معذرت کر لی۔ آج پاکستان کا پاسپورٹ دنیا کے کم اہمیت والے پاسپورٹ میں شمار کیا جاتا ہے۔

عالمی مالیاتی اداروں ورلڈ بینک اور(آئی ایم ایف) کےپاکستان کے متعلق اجلاس دوبئی میں منعقد ہوتے ہیں۔

مشرق وسطیٰ کی سیاست ہما گیر عالمی علاقائی تبدیلیوں اور عالمی طاقتوں کے بدلتے ہوئے مفادات کے پیش نظر تبدیل ہو رہی ہے۔

آج خارجہ امور سے متعلق وزیرِاعظم کے تین مشیروں کے ہوتے ہوئے بھی ہم ایک ایسی خارجہ حکومتِ عمل ترتیب دینے سے قاصر ہیں جو سعودی عرب اور ایران میں توازن برقرار رکھتے ہوئے پاکستان کے قومی مفادات کا تحفظ کر سکے۔

چین سے خارجہ تعلقات کے باب میں یقین پاک چین اکنامک کوریڈور ایک اہم سنگِ میل ہےلیکن ہم اِس اہم منصوبے کو مشرق وسطیٰ اور ایشیاء کے مفاد سے ہم آہنگ کرانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔

سب سے بڑھ کر یہ کہ ذوالفقار علی بھٹو خارجہ تعلقات کےفیصلے بند کمروں اور بین الاقوامی دباءو کے پیشِ نظر کرنے کے قائل نہ تھے وہ پہلے حکمران تھے جو خارجہ امور کے اہم فیصلے عوام کی مشاورت سے سیاسی جلسوں میں طے کرتے۔

آج اگر ذوالفقار علی بھٹو زندہ ہوتے تو وہ روف کلاسرہ کی خبر کا ضرور نوٹس لیتے جس میں مشیرِ خارجہ طارق فاظمی کی بیوی اپنی این جی او کے لئے جاپانی سفارتخانے سے مالی امداد حاصل کرتی ہیں۔

اور اس لمحے بھی مجھے ذوالفقار علی بھٹو بہت یاد آتے ہیں جب وزیرِاعظم نواز شریف امریکی صدر اوباما سے امریکی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کی موجودگی میں پاکستان کا موقف بیان کرنے کے لیے اپنی جیب میں پرچیاں تلاش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے