ریاست کی عملداری

بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے بعد وزیر اعظم نریندرا مودی اتنے دباو¿ میں نہیں لگتے جتنے دباو¿ میں ہمارے اپنے وزیر اعظم نواز شریف آگئے ہیں ۔فوج کے ترجمان کا جاری کردہ بھارتی جاسوس کا اعترافی ویڈیو بیان دیکھیں اور پھر ہمارے مقبول وزیر اعظم کے قوم سے خطاب کی ویڈیو سے موازنہ کریں تو فرق صاف ظاہر ہے ۔ بھارتی جاسوس پکڑے جانے کے باوجود پر اعتماد اور اپنے کام سے مطمئن نظر آتا ہے جبکہ ہمارے وزیر اعظم قوم سے خطاب میں اتنے ہی پریشان اور عدم اعتماد کا شکار نظر آتے ہیں ۔ نجانے وہ سیاستدان کہاں گئے جن کو دیکھ کر غریب آدمی میں بھی ہمت اور حوصلہ پیدا ہوتا تھا ( شاہد ان کو عبرت ناک مثال بنا دیا گیا )۔ مگر پھر کڑوا سچ اور تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ بھارتی جاسوس کے چہرے پر اعتماد اور اطمینان کی وجہ ان کا باوردی فوجی افسر ہونا تھا۔

اپنے ویڈیو بیان میں محترم جاسوس نے برملا اعتراف کیا کہ پکڑے جانے کے بعد جب اس نے یہ بتایا کہ وہ ایک نیوی کا ایک افسر ہے تو عسکری روایات کا احترام کرتے ہوئے اسکے ساتھ احترام کا رویہ اپنایا گیا۔ یقینا اگر وہ کوئی معمولی سویلین جاسوس ہو تا تو ویڈیو میں پریشان اور عدم اعتماد کا شکار نظر آتا ۔ جتنی عزت و احترام عسکری روایات کی آڑ میں بھارت کے فوجی جاسوس کو ملا ہے بظاہر وہ احترام آئینی تقاضوں کے تحت نہ سہی عسکری روایات کی تحت ہی ہمارے وزراءاعظم کو مل جاتا تو آج ہم عوام ان سیاستدانوں کا خود ہی مو¿ثر احتساب کرنے کی تربیت حاصل کر چکے ہوتے ۔

اب ایسے تلخ تاریخی پس منظر اور مسلسل غیر جمہوری ہتھکنڈوں کے ہوتے ہوئے کسی وزیر اعظم کا بھارتی جاسوس کے پکڑے جانے پر بات کرنے یا نہ کرنے سے کیا فرق پڑتا ہے ۔جب جاسوس کی گرفتاری اور اس سے حاصل شدہ درست اور تفصیلی معلومات ہی آئینی حکومتی اداروں اور وزیر اعظم کو فراہم نہ کی جائیں اور ایسے جاسوس کی گرفتاری کا معاملہ فوج کے سربراہ حکومت یا وزرات خارجہ کے ذریعے اٹھانے کی بجائے براہ راست پڑوسی ملک کے مہمان صدر کے ساتھ اٹھایا جاتااور اس ملاقات سے متعلق بیان دفتر خارجہ کی بجائے فوج کے ترجمان کی جانب سے جاری کیا جائے تو پھر اس معاملے کو بین الاقوامی سطح پر اٹھانے کیلئے کسی وزیر اعظم کی ربڑ سٹمپ کی ضرورت ہی کیا ہے ۔ایسے میں ایک وزیر اعظم ایسے اہم واقعات پر قوم کو کیسے اور کیا اعتماد میں لے گا ، خاص کر جب بے چارہ یہ بھی سوچتا ہو کہ اس جاسوس کا تعلق کہیں اسکے اپنے خاندان سے ہی نہ جوڑ دیا جائے ۔یہ خدشات بھی بے وجہ نہیں ۔

کلبھوشن یادیوکی گرفتاری کے بعد ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت صحافت کے چند حوالدار اینکروں اور سیاست کے چند صوبیدار لیڈروں کی جانب سے یہ خبریں بھی پھیلائی جارہی ہیں کہ حکمران جماعت کے شریف خاندان کی شوگر مل میں بھارتی شہری بطور ماہرین ملازمت کر رہے ہیں۔ تاثر یہ دیا جارہا ہے کہ ان بھارتی ماہرین کا تعلق کلبھوشن یادیو سے بھی ہو سکتا ہے ۔اس تمام معاملے میں سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا جارہا ہے اور آہستہ آہستہ یہ خبریں ٹی وی اور اخباروں میں بھی جگہ بنانا شروع ہو گئی ہیں ۔اس پر شریف خاندان کی خاموشی یا اس کا مبہم ردعمل یقینا سوالات کو جنم دیتا ہے ۔ محض یہ باالواسطہ ردعمل آرہا ہے کہ یہ بھارتی ماہرین تحریک انصاف کے جہانگیر ترین کی شوگر ملوں میں بھی کام کرتے رہے ہیں ۔اس وجہ سے بھی نواز شریف بھارتی جاسوس سے متعلق ایسی کوئی بھڑک نہیں مارنا چاہتے جو بعد میں انکے اپنے گلے پڑے ۔نواز شریف پر بولنے کیلئے دباو¿ بھی ڈالا جارہا ہے اور ساتھ ہی خاموشی میں عافیت کی نصیحت بھی کی جارہی ہے ۔اس میں قصور ان کا اپنا بھی ہے ۔ یہ خبر یقینا افسوسناک ہے کہ ہمارے ملک کا وزیر اعظم اور انکے اہل خانہ اپنے نجی کاروباری معاملات میں اتنے غیر محتاط اور لاپرواہ بھی ہو سکتے ہیں کہ بھارت کے شہریوں کو اپنی فیکٹریوں میں بغیر خفیہ اداروں کی تصدیق کے ملازمت دیں ۔مگر اس سے زیادہ شرمندگی کی بات یہ ہے کہ ہم اور ہمارے خفیہ ادارے اتنے طویل عرصے سے ان افراد کی پاکستان میں موجودگی اور© ”مشکوک سرگرمیوں“ سے بے خبر رہے ۔بظاہر ہمارے ادارے ہر بڑی کارروائی اور اسکی خبر کے اجراءکیلئے ”مناسب وقت“ کے تعین میں کمال مہارت حاصل کر چکے ہیں ۔دودھ کی جلی نواز حکومت چھاج کو بھی پھونک پھونک پی کر رہی ہے ۔ ہماری سیاسی قیادت اتنی محتاط ہو چکی ہے کہ ڈی چوک پر دھرنا دینے والے چند ہزار مظاہرین کو بھی انتظامی طریقوں سے کنٹرول نہیں کر سکی اور تھکا دینے والے مذاکرات سے احتجاج کرنیوالی قیادت کو گھر لوٹ کر آرام کرنے کی سوچ پر مجبور کر دیا ۔نواز شریف سمجھتے ہیں کہ اپنے ماتحت اداروں کو جوابدہ بنانے کی بجائے ٹی وی سکرین پر مظلوم اور بے بس دکھائی دے کر وہ عوام کی ہمدردی حاصل کر لیں گے تو یہ انکی بہت بڑی بھول ہے ۔ اسی طرح جنرل مشرف کو باہر جانے کی اجازت دیکر اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ مشکلات سے باہر آگئے ہیں تو یہ بھی غلط ہے ۔ ہماری سیاسی حکومتیں اپنی کرپشن اور کمزوریوں کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں آج تک بلیک میل ہوتی آئی ہیں ۔

اسٹیبلشمنٹ نے ان کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر مشرف کی صورت نو سال اقتدار کے مزے لوٹے اور این آر او کے ذریعے عوامی مفاد کا سودا کیا ۔ اس اداراتی مفاد پرستی اور سیاسی اقتدار کی بھوک نے ہمارے اپنے اداروں کو سیاسی حکومتوں کیخلاف عوام کو ورغلانے کا کاروبار جاری رکھنے کا موقع دیا ۔ جنرل مشرف کے باہر جانے کے بعد ایسے سازشیوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔ آٹھ سال تک جنرل مشرف کے دور میں جوتے کھانے کے بعد اب عوام تین سال میں ہی پیاز کھانے سے اکتا گئے ہیں ۔ریاست کی عملداری قائم کرنے کے نام پر ریاست کے اندر ریاست کو جس طریقے سے مضبوط کیا گیا ہے اسکے بعد یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ اس ملک میں ریاست کی نہیں ریاست در ریاست کی عملداری قائم ہو چکی ہے ۔ہمارے وزیر اعظم نواز شریف بھی اب مناسب موقع کے منتظر ہیں کہ جب اس سال نومبر میں انھیں نیا آرمی چیف منتخب کرنے کا اختیار مل جائیگا ۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب جمہوریت بالادست ہو جاتی ہے ۔مگر تاریخ نے ثابت کیا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آرمی چیف کون ہے سوائے اسکے کہ قوم کو وزیر اعظم کے ذریعے یہ فیصلہ کرنے کا اختیار مل جاتا ہے کہ اس نے کسی فوجی آمر کی شکل میں جوتے کھانے ہیں یا پھر کسی” جمہوریت پسند“ سالارکی شکل میں پیاز کھانا ہے،ایک مرحلہ ایسا آتا ہے کہ دونوں ناقابل برداشت ہو جاتے ہیں ۔تو نومبر کے انتظار میں خاموش سسکیاں لینے کی بجائے اپنے عوام کو اعتماد میں لینا بہتر رہے گا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے