ریاستی اداروں کی مار کھانے کو ہر وقت تیار ’’گدھا‘‘

جلسے، جلوس اور ہڑتالیں ہمارے ملک کے لئے کوئی انوکھی بات نہیں۔ برصغیر پاک وہند پر اپنا تسلط جمانے کے بعد برطانوی سامراج نے بڑی ذہانت کے ساتھ انہیں ایک حوالے سے روزمرہّ اور معمول کی صورت اختیار کرنے دی۔

1857ء کے بعد اس نے جان لیا کہ خیبر سے راس کماری تک پھیلے اس وسیع وعریض خطے کی بے تحاشہ آبادی کو محض تشدد کے ذریعے غلام بنانا، سمندر پار سے آئے چند ہزار نفوس پر مشتمل گورے فوجیوں اور انتظامیہ کی حکمرانی کے ذریعے ممکن ہی نہیں۔ زیادہ بہتر یہی ہے کہ لوگوں کے دلوں میں ابلتے غصے کو اظہار کے مواقع فراہم کئے جائیں۔

جلسوں میں ہوئی ’’باغیانہ‘‘ تقاریر کے مستند متن سپیشل برانچ کے ’’چٹ کپڑے‘‘ اہلکاروں کے ذریعے اکٹھا کئے جاتے۔ ان کے مواد کا معروضی جائزہ لے کر بلکہ حکومت کو ایسے اقدامات لینے پر مجبور کیا جاتا جو لوگوں میں یہ امید جگائیں کہ ’’قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے‘‘ پیش کئے گئے ’’جائزمطالبات‘‘ پر ہمدردانہ غور کیا جاسکتا ہے۔ چند فوری نوعیت کے مسائل کا پرامن احتجاج کے ذریعے مداوا ممکن ہے۔
برطانوی سامراج کی اس زیرک پالیسی کی وجہ سے برصغیر میں چین، ویت نام اور دنیا کے دیگر غلام بنے ممالک میں ابھرنے والی مسلح جدوجہد اور گوریلا جنگ کی گنجائش باقی ہی نہ رہی۔ سامراج نے بالآخر دوسری عالمی جنگ کے بعد اپنے وطن کی ریاستی اور معاشی مجبوریوں کو پوری طرح سمجھتے ہوئے برصغیر کو ’’آزاد‘‘ کرنے کا فیصلہ کیا۔ سامراج سے مقامی اشرافیہ کو اقتدار کی منتقلی مذاکرات اور خط وکتابت کے طویل ادوار کے بعد ایک منظم انداز میں پایہ تکمیل تک پہنچی۔

جلسے،جلوس اور ہڑتال کے ضمن میں دکھائی اس فراخ دلی کے مقابلے میں لیکن ’’بلوے‘‘ کو ہمیشہ ایک سنگین جرم گردانا گیا۔ احرار اور خاکسارجیسی جاندار تحاریک اسی وجہ سے اپنے ابتدائی ایام میں بے پناہ عوامی مقبولیت کے باوجود بالآخر اپنی موت آپ مرگئیں۔ ’’بلوے‘‘ کو روکنے اور اس ضمن میں کئے تمامتر پیشگی اقدامات کے باوجود برپاہوجانے کی صورت میں انتظامیہ کبھی درگزر سے کام نہیں لیتی تھی۔ بلوے کے ذمہ دار افراد کو ہر صورت گرفتار کرنے کے بعد عدالتوں کے ذریعے جیلوں تک پہنچایا جاتا۔ ساتھ ہی ساتھ بڑی شدومد کے ساتھ ان تمام انتظامی کوتاہیوں کا سراغ لگاکر اس کے ذمہ دار افسروں اور اہلکاروں کی نشاندہی کا عمل بھی جاری رہتا اور خطا کاروں کو اپنی کوتاہیوں کی سزا انضباطی حوالوں سے ہر صورت بھگتنا پڑتی۔

قیامِ پاکستان کے بعد مگر ہماری ریاست ان تمام صلاحیتوں سے بتدریج اور بالآخر خطرناک حد تک محروم ہونا شروع ہوگئی۔ جان کی امان پاتے ہوئے میں یہ بات کہنے پر مجبور ہوں کہ ریاستی بے بسی کا مکمل طورپر بے نقاب ہونا جنرل مشرف کے آخری دنوں میں شروع ہوا تھا جس نے اپنے تئیں جنرل (ریٹائرڈ) تنویر نقوی جیسے افلاطون کی مدد سے پاکستان میں ایک Republicمتعارف کروائی تھی۔ ’’اقتدار کی نچلی سطح تک منتقلی‘‘ اور ’’جعلی نہیں اصلی جمہوریت‘‘ وغیرہ۔
آغاز ریاستی بے بسی کی بے نقابی کا وکلاء کی جانب سے افتخار چودھری کی بطور چیف جسٹس بحالی کی تحریک کے ذریعے ہوا۔ اس تحریک کے دوران یقینا ’’ایک گملہ‘‘ بھی نہیں ٹوٹا تھا۔ ریاستی کنٹرول سے آزاد 24/7چینلوں کی طرف سے اس تحریک کی Live Coverageنے مگر انتظامیہ کو حواس باختہ کردیا۔ پرامن احتجاجی تحریک کے دوران ہی اسلام آباد کی لال مسجد والے پاکستان میں ’’شرعی نظام‘‘ کو لاگو کرنا شروع ہوگئے۔ ریاست اور اس کی انتظامیہ کے لئے یک نہ شددوشد والا معاملہ ہوگیا۔

مجھ ایسے اینکرز جنہیں کئی وجوہات کی بناء پر شاید ’’شرعی نظام‘‘ کے نفاذ میں کوئی زیادہ دلچسپی نہیں تھی لال مسجد والوں کی طرف سے ’’ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے‘‘ کی کوششوں پر واویلا مچانا شروع ہوگئے۔ بالآخر جب لال مسجد کے خلاف آپریشن ہوا تو مجھ ایسے لوگ ہی بغیر مستند ثبوتوںکے ان ’’یتیم بچیوں‘‘ کی ’’سفاکانہ ہلاکت‘‘ پر ماتم کنائی میں مصروف ہوگئے جو مبینہ طورپر اس آپریشن کا نشانہ بنی تھیں۔ سچی بات یہ بھی ہے کہ لال مسجد کے حوالوں سے کئی دنوں تک ٹی وی سکرینوں پر مسلسل ہوئی ’’سینہ کوبی‘‘ نے مذہبی انتہاء پسندوں کو بالآخر خود کش دھماکوں کے ذریعے ریاست سے ’’انتقام‘‘ لینے پر مجبور بھی کیا۔

لال مسجد کے واقعے کے بعد سے جب بھی کوئی سیاسی یا مذہبی رہ نما کسی نہ کسی بہانے اسلام آباد پر چڑھ دوڑتا ہے تو حکومت اور انتظامیہ کے ہاتھ پائوں پھول جاتے ہیں۔ ریاست مفلوج ہوئی نظر آتی ہے۔ دنیا بھر میں ہمارا تماشہ لگ جاتا ہے۔ دھرنا تو بالآخر ختم ہوجاتا ہے مگر حکومتی اور انتظامی سطح پر آئندہ ایسے واقعات کو روکنے کی کوئی حکمت عملی تیار کرنے کی کوشش ہی نظر نہیں آتی۔
پنجابی کا ایک محاورہ ذکر کرتا ہے اس غصے کا جو گدھے سے گراکوئی شخص اس گدھے کے مالک کمہار پراتارتاہے۔ ہمارے ریاستی اداروں کی مارکھانے کو ان دنوں ہر وقت تیار ’’گدھا‘‘ اپنے تئیں ہمہ وقت چوکس، بیدار اور انتہائی آزاد ہونے کا دعوے دار میڈیا ہے۔

اس میڈیا کو اصل لگام بالآخر پہلے ’’قومی سلامتی‘‘ سے جڑے ’’خدشات‘‘ نے ڈالی۔ Ratingsکویقینی بنانے کے دعوئوں کے ساتھ سکرینوں پر سرخی پائوڈر لگاکر بیٹھے سٹار اینکرز خواتین وحضرات نے اپنی تنخواہ، آرام، سہولتوں اور شوشا کی خاطر اس لگام کو ’’جذبہ حب الوطنی‘‘ کی شدت کے ساتھ اپنے گلے میں ڈال لیا۔ پھر ’’ہم بھی یہیں موجود ہیں‘‘ والے پیغام کے ساتھ متحرک ہوگیا PEMRA۔ذہنی غلاموں نے اس کی ہدایات کو بھی آمناََ وصدقناََ کہا۔ میڈیا مگر اب بھی آزاد ہونے کا دعوے دار ہے۔ ہماری سکرینوں پر ہمہ وقت رونق لگی رہتی ہے۔ دھندا خوب چل رہا ہے۔ اسے صحافت نہیں مگر کوئی اور نام دینا ہوگا۔ ساری عمر اس پیشے کی نذر کردینے کے بعد میری فریاد ہے تو بس اتنی کہ :’’تم کوئی اچھا سا رکھ دو اپنے دیوانے کا نام‘‘۔ اس التجا کے بعد میرا اسلام آباد میں ہوئے حالیہ دھرنے کے بارے میں کوئی تجزیہ آپ کی سمع خراشی کے لئے موجود نہیں ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے