نظام مصطفیٰ کانفرنس کی اندرونی کہانی

جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ میں دینی جماعتوں کے اجلاس کے بعد ایک نظام مصطفیٰ کانفرنس منعقد کی گئی. کانفرنس سے پہلے جماعۃ الدعوۃ کے مرکز میں بھی ایک اہم اجلاس منعقد ہوا لیکن اس اجلاس میں سراج الحق اور فضل الرحمن شریک نہیں ہوئے. اس کی وجہ وہی ہے جس کا ذکر میں گزشتہ تحریر میں کر چکا ہوں کہ "منافقت” ان جماعتوں کی واحد خوبی ہے جو سب میں بدرجہ اتم موجود ہے. کیونکہ ان جماعتوں کو امریکا ، بھارت ، یورپ اور برطانیہ سے بھی تعلقات ” مثبت” رکھنے ہوتے ہیں ، اس لیے وہ جماعۃ الدعوہ کے مرکز نہیں آئے .

خیر نظام مصطفیٰ کانفرنس کے دوران بھی کچھ ایسے ہی معاملات دیکھنے میں آئے.

مرکزی جمعیت اہلحدیث کے امیر سینیٹر ساجد میر جب گفتگو کرنے کے لیے ڈائس کی طرف آئے تو ایک بزرگ کھڑے ہو گئے اور کہنا شروع کر دیا کہ جناب یہ اتحاد نوازشریف حکومت کی لبرل پالیسیوں کے خلاف ہے تو پہلے آپ سینیٹر کے عہدے سے مستعفی ہوں. جب بزرگ یہ بات کر رہے تھے تو میرے ذہن میں ایک واقعہ گردش کرنے لگا جس کو اکثر علماء بیان کرتے ہیں.

واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ خلیفہ دوم عمر فاروق رضی اللہ عنہ منبر پر بیٹھے تو ایک اجنبی نے سوال کر دیا.. جناب! آپ کے جسم پر دو چادریں ہیں جبکہ باقی سب کو ایک ایک چادر ملی ہے. آپ جواب دیں کہ یہ چادر کہاں سے آئی. اگر یہ مجلس کسی دینی جماعت کی ہوتی منبر پر اس کا.کوئی عہدیدار ہوتا تو یقیناً پہلے تو سوال کرنے والے کی ” خدمت ” کی جاتی اور پھر اسے یہ کہہ کر مجلس سے نکال دیا جاتا کہ تمھیں جرات کیسے ہوئی یہ سوال کرنے کی.

لیکن یہ مجلس دین کے نام پر لوگوں کا استحصال کرنے والی کوئی جماعت کے عہدیدار نہیں بلکہ امیر المؤمنین تھے انہوں نے سر جھکایا اور کہا کہ اس کا جواب میرا بیٹا دے گا.

یہ واقعہ آپ کو بہت ساری تقاریر میں ملے گا.. لیکن نظام مصطفیٰ کانفرنس میں ساجد میر سے سوال کرنے والے بزرگ کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا جب انہوں نے گستاخانہ سوال کر دیا تو پہلے تو مجمع والوں نے انہیں برا بھلا کہا اور پھر کچھ نوجوانوں نے ان کو پکڑا اور باہر نکال دیا.

اس سے بڑھ کر ایک اور ” یکجہتی ” کا واقعہ سامنے آیا جب ایک دینی جماعت کےسربراہ نے نماز کے وقت اپنا علیحدہ مصلی بچھایا اور اپنے مقتدیوں کےساتھ نماز شروع کر دی. کچھ لوگوں نے حیرت اور غصے کےملے جلے تاثرات کے ساتھ دیکھا اور کچھ نے تو باقاعدہ غصے کا اظہار بھی کیا تاہم باقی لوگ اپنے اپنے امام کے پیچھے نماز کی ادائیگی کے لیے چلےگئے .

میں اس پر کچھ لکھنا ہی چاہ رہا تھا کہ مجھے اپنے صحافی دوست کی بڑبڑانے کی آواز سنائی دی موصوف دینی جماعتوں کے خلاف اپنے جذبات کا احساس کر رہے تھے. میں نے پوچھا تو.فرمانے لگے کہ آج جماعت اسلامی کا پروگرام تھا جس میں جماعۃ الدعوۃ کے صدر حافظ سعید بھی آئے تھے لیکن ابھی ان کے میڈیا کو آرڈی نیٹر کا فون آیا کہ جماعت اسلامی کی پریس ریلیز میں حافظ سعید کا بیان نہیں لکھا گیا. اس لیے وہ علیحدہ بھیج رہا ہے. جماعہ الدعوة آج کل پیمرا کے نوٹس کی زد میں ہے اور وہ یہ سوچ کر جماعت اسلامی کے جلسہ میں آ جاتے ہیں کہ چلو شاید کوریج ہو جائے البتہ پرنٹ میڈیا میں جماعت اسلامی نے ان کا پتا کاٹ دیا.

میں سوچ رہا تھا کہ ابھی نظام مصطفیٰ تحریک کا آغاز ہے اور ان جماعتوں کا یہ رویہ ہے اگر واقعی یہ تحریک تیز ہو گئی تو کیا بنے گا

یہاں تو ہر جماعت اپنی اپنی اینٹیں اور اپنی مسجدیں سنبھالے ہوئے ہے کیا نظام مصطفیٰ اسی کا نام ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے