پاکستان میں دہشت گردی ، کون کتنا ذمہ دار

ساٹھ کی دہائی میں پاکستان میں صنعتی ترقی کا ابھار
شہری آبادیوں میں سماجی ، ثقافتی و سیاسی پسماندگی کے خاتمہ کی طرف سفر کا آغاز تھا. جسے عوامی مفادات کو سیاست و ریاستی طاقت کا مرکز بںانے والی پیپلز پارٹی کی مقبولیت نے مستحکم کیا تھا . گو سماج میں جاگیر دارانہ ثقافت ، مذہبی رجحانات ان کی تبلیخ کے اثرات موجود تھے لیکن پی پی پی کے سیکولر اور معاشی ، سماجی و سیاسی مساوات کے ریڈیکل پروگرام بعد ازاں حکومتی اصلاحات کی بدولت سماج میں آرٹ و کلچر،تہذیب و تمدن، رواداری و تحمل کا کلچر مظبوط ہونے لگا. عوام دوست نصابی تعلیمات اور سیاسی عمل کے استحکام کی بنا پر انفرادیت کی بجاۓ اجتمائیت کی فکر نے جنم لیا تو پاکستانی سماج مجموئی طور پر جمہوری رویوں کا آئینہ دار بن گیا.

انیس سو چوہتر کے بعد پی پی پی حکومت رد انقلاب کے سفر پر گامزن ہو گئی . آئین پاکستان میں مذہبی جماعتوں کو خوش کرنے کے لیے ایسے قوانین شامل کیے گۓ جو پی پی پی کے سیکولر پروگرام کے بر عکس تھے. اس یو ٹرن کی وجہ سے سماج میں انتہا پسند مذہبی بیانیہ کے رجحانات شہری لوئر و مڈل کلاس میں فروغ پانے لگے. پی پی پی کے خلاف چلنے والی قومی اتحاد کی تحریک نظام مصطفیٰ کا سیاسی نعرہ بھی اسی بنا پر مقبول ہوا تھا.اس تحریک نے قدامت پسندی ، مذہبی انتہا پسندی اور متشدد رویوں کو سماج پر غالب کر دیا.ملائیت کے ہاتھوں بلیک میل ہونے والی عوام کی پہلی منتخب حکومت جب ضیاء الحق کی آمریت کا شکار بنی تو ضیاء نے نفاد نظام مصطفیٰ کے نام پر شخصی اقتدار کو طوالت دینے کی حکمت عملی اپنائی.یہ عمل پاکستان میں ترقی پسند اقدار و روایات کے زوال اور انتہا پسندی کے عروج کی شروعات ثابت ہوا.

انیس سو اٹھتر میں افغانستان میں روسی مداخلت سے ثور انقلاب وقوع پذیر ہوا تو امریکا اور اس کے اتحادی ممالک نے خطہ میں اس تبدیلی کو اپنے لیے بڑا خطرہ سمجھتے ہوے اس کے خاتمہ کے لیے ایک مشترکہ منصوبہ بندی کی. جس پر عملی جامہ پہنانے کے لیے امریکی صدر جمی کارٹر کے مشیر برزنسکی نے ”جہاد” کا مخصوص فلسفہ تخلیق کیا . روس کے خلاف ”جہاد ” کے لیے بیس ارب ڈالر کا پیکج کانگرس سے منظور کروایا گیا جبکہ دیگر اتحادی ممالک کے لاکھوں ڈالر کی امداد اس کے علاوہ تھی . ایران اور ازبکستان کو اس جہاد کو مانیٹر کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی.ایران میں خمینی انقلاب کے بعد اس عالمی جہاد کا مرکز پاکستان کو قرار دے دیا گیا.اس ضمن میں امریکا و سعودیہ کی مشترکہ حکمت عملی کے تحت پاکستان میں ایک خاص مکتب فکر کے مدرسوں کو ہراول دستہ کا کردار دیا گیا.

دنیا بھر سے ”جہاد” کے جذبہ سے سرشار جذباتی نوجوانوں کو بھرتی کر کے پاکستان میں جہادی تربیت دی جانے لگی .پاکستان کی مذہبی و سیاسی جماعتوں ، ذرائع ابلاغ ، تعلیمی اداروں ، دانش وروں ، ادیبوں ، شاعروں ، فنکاروں ، صحافیوں ، استادوں ، کھلاڑیوں کو جہاد کو فروغ دینے کے لیے استعمال کیا گیا. ”تکمیل جہاد ”کے لیے پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا. ریاست کی خارجہ ، داخلہ ، انتظامی ، دفاہی پالیسیاں اس جہادی حکمت عملی کی تابع ہو گیں . سرکاری اداروں میں متشدد مذہبی خیالات غالب آنے سے پالسی ساز ادارے و افراد بھی اس سوچ کو ہی پاکستان کی بقا کا ضامن سمجھنے لگے . جس کے نتیجہ میں پاکستانی سماج سے روا داری ، برداشت ، تحمل اور آزادی اظہار راۓ کی اقدار عنقا ہو گئیں . اس بربریت کی کوکھ سے دشت گردی نے جنم لیا .

انیس سو ستاسی میں جینوا معاہدہ کے بعد امریکا نے افغان جہاد کی سپورٹ بند کر دی تو پاکستان میں تربیت
یافتہ جہادیوں کو کشمیر میں ”جہاد” کا فریضہ سونپ دیا گیا. جہادی سرگرمیوں کے لیے بھرتی ، تربیت ، مالی معاملات مدرسوں کی ذمہ داری تھی جس سے مدرسہ کی طاقت مظبوط تر ہو گئی . مخالف فرقہ کے خلاف دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہونے لگا.

انیس سو پچانوے میں افغانستان میں امریکی مفادات کو ایک بار پھر جہادیوں کی ضرورت پڑی تو امریکی نائب صدر رابن رافیل کی سرپرستی میں سابق افغان وزیر دفاع جنرل تنائی کے گھر میں طالبان نامی تنظیم وجود میں آئی. یہ تنظیم متذکرہ مدرسوں کے طالب علموں کو منظم کر کے بنائی گئی تھی. طالبان کی تشکیل اور ان کی جہادی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے ماضی کی طرح امریکا کے ساتھ خلیجی ممالک نے بھاری سرمایہ فراہم کیا.

ضیاء دور سے طالبان کی تشکیل تک کے ہر مرحلہ میں مذہبی انتہا پسندی ، دہشت گردی کا منبع و مرکز متذکرہ بالا مدارس ہی رہے. جس سے ان کی مالی ، سماجی ، عسکری و افرادی قوت کی طاقت میں اضافہ ہوتا گیا . ہیومن رائٹس کمیشن کی دو سال قبل کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں انتیس ہزار مدارس موجود ہیں جن میں سے صرف آٹھ ہزار رجسٹرڈ ہیں. ان میں چالیس لاکھ سے زائد طلبا زیر تعلیم ہیں.

رپورٹ کے مطابق انیس سو سنتالیس میں مغربی پاکستان میں دو سو پینتالیس مدارس تھے . انیس سو اناسی میں یہ تعداد دو ہزار ہوئی ، انیس سو اٹھاسی میں دو ہزار آٹھ سو اکسٹھ ہو گئی اور انیس سو اٹھاسی سے دو ہزار تک یہ تعداد بیس ہزار ہو گئی. اس عرصہ کے دوران اضافہ کی شرح ایک سو چھتیس فیصد رہی جو تسلسل کے ساتھ بڑھ رہی ہے . اسلام آباد میں مدرسوں کے طلبا کی تعداد اس وقت چالیس ہزار کے لگ بھگ ہے. مدرسوں میں طلبا کی تعداد میں اضافہ ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب سے بڑھ رہا ہے .

غریب والدین بچوں کو پیدا کر کے مدرسوں میں چھوڑ آتے ہیں یہاں انھیں روٹی، رہائش، کپڑا مل جاتا ہے لیکن تعلیم و تربیت وہی ملتی ہے جو ان مدارس کے بانیان چاہتے ہیں . مدارس کی ایک معقول تعداد رواداری کی دینی تعلیم کے ساتھ دنیاوی تعلیم کے ذریعے متوازن سوچ کے حامل افراد سماج کو دیتی ہے لیکن ان مدرسوں کی اکثریت بچوں کے اذہان کو نفرت کا درس دیتی ہے بچوں کو بتایا جاتا ہے کہ صرف آپ حق پر ہو، جنت کی تمام آسائشیں آپ کے لیے مختص ہیں جس کے حصول کے لیے مخالفین کو بربریت کا نشانہ بنانا ضروری ہے . خود کش بمباروں کی فوج یہی مدرسے تیار کر رہے ہیں. دہشت گردی کے تانے بانے انہی مدارس سے جڑے ہیں

دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے نیشنل ایکشن پروگرام پر عمل درآمد کے حالیہ اقدامات میں ان مدارس کے خلاف ٹھوس و نتیجہ خیز کاروائی عمل میں نہ لا کر سیاسی و عسکری قوتیں اپنی لا چارگی کا اظہار کرتی نظر آتی ہیں.جس سے جہادی مکتبہ فکر کی طاقت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے. دہشت گردی کو خام مال مہیا کرنے والی ان فیکٹریوں سے جب تک نفرت ، بربریت ، تشدد کی تعلیمات کا خاتمہ نہیں ہو گا دہشت گردی کے خلاف تمام حکومتی کاروائیاں بے سود رہیں گئی .

حکومت اگر ان مدارس کو ختم کرنے میں بے بس ہے تو ایک جمہوری خکومت کی حثیت سے اسے عوام کے پاس مدارس کے متبادل کے طور پر ایک حقیقی لبرل و ترقی پسند پروگرام لے کر جانا ہو گا جو انتہا پسندی کے مائنڈ سیٹ کو ختم کر سکے

[pullquote]نوٹ: ادارہ آئی بی سی اردو پر شائع ہونے والی تحریریں خالصتاً ہمارے موقر کالم نگاروں اور بلاگرز کی آراء پر مبنی ہوتی ہیں ۔ ان کا ہماری پالیسی سے متفق ہونا ضروری نہیں ۔ قارئین کو کسی بھی تحریر پر رد عمل کا اظہار کرنا ہوتو اپنی تحریر ہمیں ibcurdu@yahoo.com پر میل کیجیے ۔ شکریہ[/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے