پانامہ لیکس کا کیا بنے گا؟

پانامہ لیکس نے آج کل ملک کی سیاست میں ایک ہلچل مچائی ہوئی ہے.ملک کے بڑے بڑے سیاسی رہنما صنعت کار اعلی عدلیہ کے ججز بیوروکریٹس اور میڈیا ہاوسـز کے مالکان کا نام بیرون ملک آف شور کمپنیاں چلانے اور اثاثے بنانے کی فہرست میں نظر آتا ہے.آف شور کمپنیاں دو قسم کی ہوتی ہیں. ایک آف شور کمپنی وہ کمپنی کہلاتی ہے جو پیداواری یا کسی بھی قسم کی خدمات فراہم کرنے والی کمپنیاں دوسرے ممالک میں قائم کرتی ہیں.اس قسم کی کمپنی کاـمقصد کمپنی کے اخراجات کو کم کر کے منافع زیادہ کرنا ہوتا ہے.

مثال کے طور پر مختلف کمپنیاں اپنے کسٹمر سروس ڈیپارٹمنٹ مارکیٹنگ یا سوفٹ ویئر ڈیویلوپمنٹ کے شعبے ایسے ممالک میں بنا لیتے ہیں جہاں کم اجرت پر کام کرنے والے پڑھے لکھے لوگ میسر ہوں.پاکستان میں قائم کئی کال سینڑز سوفٹ ویئر ہاوسز میڈیکل ٹرانسکرپشن کی کمپنیاں اس کی مثال ہیں.دوسری قسم کی آف شور کمپنیاں وہ ہوتی ہیں جو ایسے ممالک میں قائم کی جاتی ہیں جہاں ان کمپنیوں کو ٹیکس میں چھوٹ حاصل ہوتی ہے ان کمپنیوں کو دولت یا سرمائے کے سفید یا کالا ہونے کے دوارے سوالات نہیں پوچھے جاتے اور ان کمپنیوں کی تمام کاروباری سرگرمیوں کو خفیہ رکھا جاتا ہے. دوسرے الفاظ میں زیادہ تر کالے دھن کو سفید کرنے کیلئے ان کمپنیوں کو استعمال کیا جاتا ہے.

سرمائے کی دنیا میں کالے دھن کو سفید بنا کر کاروباری انوسٹمنٹ کے زریعے بیرون ممالک میں رقم کمانے اور چھپانے کا یہ بہترین زریعہ ہے. پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کے بچوں اور دیگر اہم شخصیات کے باہر اثاثہ جات اور کاروباری سرگرمیوں دوارے ہر شخص کو خبر تھی لیکن دستاویزی ثبوت اور مختلف شواہد کے ساتھ ان کمپنیوں کے نام اور پچھلی کئی دہائیوں پر مبنی فنانشل ٹرانسکشنز نے سب کا کچ چٹھہ عیاں کر دیا.

انٹرنیشنل کانسرشیم آف انویسٹیگیٹو جرنلزم نے کڑوڑہا صفحات پر مشتمل دستاویزات پر انتہائی محنت اور جانفشانی سے ریسرچ کے بعد عالمی دنیا کے کارپوریٹ اور سیاسیّ کلچر کے اس بھیانک چہرے کو عریاں کر کے یقینا ایک گرانقدر خدمت سرانجام دی ہے.پاکستانی صحافت کے معزز ترین ناموں میں سے ایک نام عمر چیمہ بھی اس ریسرچ اور پراجیکٹ کا حصہ تھے اور اس کیلئے جناب عمر چیمہ صاحب داد و تحسین کے مستحق ہیں. یہ سکینڈل عالمی اور ملکی سطح پر مختلف قسم کے اثرات مرتب کرتا دکھائی دیتا ہے.

عالمی سرمائے کی منڈی میں کالے دھن اور دنیا کی بڑی بڑی سیاسی و کاروباری شخصیات کا ان آف شور کمپنیوں کی آڑ میں اس کالے دھن کو سفید کر کے منافع کمانا اس سرمایہ دارانہ نظام کی شفافیت پر نہ صرف کئی سوال کھڑے کرتا ہے بلکہ اس کے استحصالی ہونے کا واضح ثبوت بھی فراہم کرتا ہے.

ملکی سیاست کی جانب دیکھئے تو پہلے سے کمزور وزیراعظم نواز شریف کیلئے یہ ایک بڑا سیاسی دھچکا ہے.گو ان آف شور کمپنیوں کا نواز شریف یا دیگر شخصیات کی اولادوں سے تعلق ہونا کسی بھی طور پر نواز شریف یا دیگر افراد کو کسی بھی قانون کے تحت مجرم نہیں بناتا لیکن بہرحال اخلاقی اور سیاسی محاذوں پر یہ پسپائی کا باعث بنتا ہے. خیر ہم جس معاشرے میں بستے ہیں وہاں دولت کمانے کے طریقوں پر بحث لاحاصل ہے.

تیسری دنیا یا پسماندہ ممالک میں سیاست کاروبار اور سرکاری عہدوں پر قابض ہی اس لیئے ہوا جاتا ہے کہ دولت کمائی جا سکے. اس قسم کے جرائم کیلئے ایک اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جسے "وائٹ کرائم ” کا نام دیا جاتا ہے.کارپوریٹ اور سیاسی گٹھ جوڑ پر مبنی اس جرم کے ثبوت و شواہد عدالتوں میں ثابت کرنا یقینا ایک طرح سے ناممکن ہی تصور کیا جاتا ہے . لیکن پاکستان جیسے ملک میں سیاستدانوں اور بالخصوص وزیر اعظم کے خاندان کا اس سکینڈل میں نام آنا بطور مجموعی سیاست اور جمہوریت کیلئے زہر قاتل ہے.ہم اکثر وطن عزیز میں جمہوریت کے کمزور ہونے کی دہائیاں تو دیتے ہیں لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ جمہوریت کے کمزور ہونے کی ایک بہت بڑی وجہ خود سیاستدان بھی ہیں.

اگر نواز شریف اپنے آپ کو ایک قومی رہنما تصور کرتے ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ وہ آج تک اس سوال کا جواب نہیں دے پائے کہ جب سے وہ سیاست میں آئے ہیں ان کے اور ان کے اثاثہ جات میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے.پاکستان میں کسی بھی سیاستدان کو دیکھ لیجئے سیاست میں آتے ہی اس کے اثاثہ جات دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرتے دکھائی دیتے ہیں. جب سیاستدان ہر قسم کی مالی یا اخلاقی بدعنوانی میں ملوث ہوں تو پھر جمہوریت کے مستحکم نہ ہو پانے پر کیسا شور؟ پس پشت قوتوں کو اگر آ بیل مجھے مار کے مصداق دعوت عام دی جائے اور پھر یہ تصور کیا جائے کہ بیل اب نہیں مارے گا تو اس سے بڑی حماقت اور کوئی بھی نہیں ہو سکتی.

جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر بڑے بڑے صنعتکار اور وڈیرے فوجی آمروں کی طرح شخصی حاکمیت پر قائم آمرانہ راج قائم کر کے خاندان اور احباب پر انعام و اکرام کی نوازشیں کرتے ہیں تو پھر عام آدمی کو اس سے ہرگز بھی فرق نہیں پڑتا کہ وطن میں جمہوری نظام ہے یا آمریت. ویسے بھی غربت سے محروم آنکھیں اور لقمہ سے خالی پیٹ والے کڑوڑہا افراد کیلئے نظام وہ معنی رکھتا ہے جس میں ان کے گھروں کے چولہے جل سکیں.جمہوریت یا مہذب معاشرے کے حق میں دلائل بھی صرف بھرے ہوئے پیٹ دیتے ہیں.

رائے ونڈ نوڈیرو یا بنی گالہ کے محلات سے زندگی کی تمام آسائشوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے جمہوریت پر لیکچر دینا بے حد آسان ہے اور حس جمالیات یا دانشوارانہ ذوق کی تسکین کیلئے باعث تسکین بھی. لیکن وطن عزیز کی نصف سے زائد آبادی جو خط غربت سے بھی نیچے زندگی بسر کرتی ہے اس کے لیئے یہ سب باتیں عملی طور پر کوئی معنی نہیں رکھتیں. اگر ایک جانب وزیر اعظم پاکستان کی اولادوں کے نام پر کڑوڑوں پاؤنڈز کی کاروباری سرگرمیاں بیرون ملک ہوں تو وہ وزیر اعظم کس منہ سے ملک کے غریبوں سے غربت ختم کرنے کے دعوے کر سکتا ہے یا بیرونی سرمایہ داروں سے ملک میں سرمایہ کاری کا بول سکتا ہے. کسی بھی رہنما کے سچے ہونے کی دلیل اس کے عمل سے ہوتی ہے جیسے کہ نبی کریم کی زندگی تھی خلفائے راشدین کی زندگی تھی یا پھر ابراہم لنکن مارٹن لوتھر کنگ محمد علی جناح اور نیلسن منڈیلا کی زندگی تھی.یہ لوگ اپنی اپنی ندگی کے معاملات میں مکمل شفافیت اور ایمانداری سے کام لیتے تھے یہی وجہ ہے کہ ان سب نے نظام کو تبدیل کیا اور بڑے سے بڑا مخالف بھی ان کو زیر نہ کر پایا.موجودہ سیاسی قیادت جو وطن عزیز میں موجود پے ان سب کے دامن پر کرپشن اور سازشوں کے دھبے موجود ہیں. نواز شریف اور آصف زرداری یا الطاف حسین یا پھر عمران خان ان سب کی کمزوریوں اور مالی یا اخلاقی کرپشن نے اس وطن میں جمہوریت کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا ہے.اپنے اپنے اقتدار کے شوق کی لالچ میں خود یہی افراد جمہوریت کے لیئے سب سے بڑا خطرہ بن چکے ہیں.

ہمارے ساتھ تو المیہ یہ بھی ہے کہ ہمیں نہ تو آج تک خالص جمہوریت مل پائی اور نہ ہی خالص آمریت. جمہوریت کا راگ الاپتے قومی رہنما ہوں یا فوجی وردی میں ملبوس آمر سب مال بٹور کر چلتے بنتے ہیں.عمران خان کا بنی گالہ کا محل ہو یا نواز شریف کا رائے ونڈ کا محل یا پھر پرویز مشرف اور دیگر جرنیلوں کے شاندار فارم ہاوسز اور بنگلے یہ محلات چیخ چیخ کر وطن عزیز کے اس مسئلے کی طرف توجہ دلوانے کی کوشش کرتے ہیں جس میں اس وطن کے نظام میں ایک سفید پوش آدمی کو دینے کیلئے دھکوں اور ذلت کے سوا کچھ بھی نہیں.اور یہی وطن عزیز کا سب سے بڑا مسئلہ ہے .

جمہوریت ہو یا آمریت یہ دونوں اشرافیہ کے گھر کی باندیاں ہیں. شاید وطن عزیز میں بسنے والے ہم سب لوگ ذہنی طور پر ابھی بھی غلامی کے طوق سے نجات حاصل نہیں کر پائے اسی لیئے دولت اور مرتبے والوں کو خوشی خوشی اپنا لیڈر تسلیم کر کے ہر آن لٹنے اور برباد رہنے کو ترجیح دیتے ہیں.

یہ پانامہ لیکس کا سکینڈل طاقت کے ایوانوں میں بچھی شطرنج پر محض چالیں یا زیادہ سے زیادہ مہرے تبدیل کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کرے گا.لیکن غلامی کے طوق کو خوشی خوشی گلے لگانے والوں کو اب یہ سوچنا ہو گا کہ آخر کب تلک یوں ہی ان رہزنوں کو رہنما سمجھ کر لٹتے ہی چلے جانا ہے.کب یہ سیدھی سی بات سمجھنی ہے کہ عام آدمی کے مسائل کا حل وہی پیش کر سکتا ہے جو خود بل جمع کروانے کی قطاروں میں کھڑے ہو کر انتطار کے کرب سے گزرا ہو جس نے سرکاری ہسپتالوں میں علاج معالجے کیلئے دھکے کھائے ہوں جسے پتہ ہو کہ محدود آمدنی میں گزارا کس قدر مشکل ہوتا ہے نا کہ بنی گالی رائے ونڈ یا نوڈیرو کے محلات میں بسنے والی اشرافیہ جن کے کتوں کی زندگی بھی وطن عزیز میں بسنے والے کڑوڑہا سفید پوش آدمیوں سے بہتر ہوتی ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے