چاچارشید، جماعۃ الدعوہ اورریاست

چاچا رشید میرے گاؤں کی معروف شخصیت تھی ۔ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس کے متعلق چاچا رشید مشورہ نہ دیکھ سکتا ہو ۔شام ہوتے ہی مختلف گھروں کی بیٹھکیں سج جاتی ہیں اور چاچا رشید کبھی ایک جگہ اپنے صحت کے متعلق لوگوں کو اپنے قیمتی مشوروں سے نوازتا تو کہیں حالات حاضرہ پر لوگ اس کے تبصروں سے محظوظ ہوتے ۔لیکن چاچا رشید کا سب سے پسندیدہ موضوع قانون تھا کیونکہ اپنا مقدمہ لڑتے اس نے جمع پونجی کے ساتھ ساتھ زندگی بھی گزار دی ۔ چاچا کی زندگی کی اکثرصبح اور شامیں کچہری کے پھٹوں ، عدالت کے کٹہروں اور وکلاء کے چیمبرز میں گزری ہیں ۔قصہ کچھ یوں ہے کہ چاچا کی چار ایکڑز زمین تھی جو گاؤں کے ہی ایک زمیندار نے ہتھیا لی ۔ چاچا رشید کی دو بیٹیاں تھیں جن کے لیے چاچا نے یہ جنگ لڑی ۔ گاؤں کے اکثر لوگ جانتے تھے کہ چاچا رشید حق پر تھا لیکن قانونی طور پر ایک جعلسازی کی وجہ سے زمیندار نے اس سے ہتھیالی ۔ لاہور سے لے کر اسلام آباد ، ہائی کورٹ سے لے کر سپریم کورٹ اور سیشن جج سے لے کر چیف جسٹس تک ہر جگہ چاچا نے اپنے حق کے لیے درخواست دی لیکن شنوائی نہ ہوئی اور اس عرصہ میں اس نے اپنی باقی زمین بھی گنوا دی ۔ اس کی بیٹیو ں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا خود بھی تشدد برداشت کیا لیکن تعلقات نہ ہونے کی وجہ سے وہ کچھ نہ کرسکا ۔ میں اسلام آباد ہوتے ہوئے اس کی کاغذوں کا پلندہ لے کر کچھ دوستوں کے پاس بھی گیا اس کی درخواست چیف جسٹس کے رجسٹرار تک پہنچائی لیکن مسئلہ جوں کا توں رہا ۔اور اب گاؤں میں اس کا نام باقی ہے یا اس کی بیٹیاں جو اپنا مقدمہ نہیں لڑ سکتیں ۔

اب آئیے انگریزی اخبار کی اس خبر پر جس میں کہا گیا ہے کہ جماعۃ الدعوۃ نے ایک متوازی عدالت بنا رکھی ہے جس میں سمن جاری کیے جاتے ہیں اور لوگوں کو سزا سنائی جاتی ہے اس سے پہلے یہی انکشاف لال مسجد کے حوالے سے منظر عام پر آیا تھا ۔ میں اس نظام کی حمایت نہیں کر سکتا لیکن اس کے باوجود ہماری عدالتوں پر یہ سوالیہ نشان ہے ۔ خود عدالتیں تسلیم کر چکی ہیں کہ ان کا یہ نظام لوگوں کو انصاف فراہم نہیں کرسکتا ۔ پیپلز پارٹی کہتی ہے کہ بھٹو کا عدالتی قتل کیا گیا ۔ آصف علی زرداری کے مقدمات ہمارے سامنے ہیں ۔مسلم لیگ ن بھی سپریم کورٹ پر حملہ کر چکی ہے ۔ عام آدمی تو ان عدالتوں تک پہنچ ہی نہیں سکتا اگر اس کے پاس وکلاء کے لیے بھاری فیس موجود نہ ہو ۔کیا کوئی تصور کر سکتا ہے کہ اس کا مقدمہ عاصمہ جہانگیر ، ڈاکٹر بابر اعوان ، اعتزاز احسن سمیت دیگر بڑے نام کے وکلاء کم فیس میں لڑیں ۔ہر گز نہیں ۔ عام آدمی کی تو اس تک پہنچ ہی نہیں ہے ۔

فوری اور سستا انصاف ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے اور ریاست کا فرض ہے کہ اپنے شہریوں کو فوری سستا انصاف فراہم کیا جائے ۔ جماعۃ الدعوۃکی جانب سے عدالت قائم کرنا لوگوں کو سستا اور فوری انصاف اور سب سے بڑھ کر شریعت کی روشنی میں فیصلے کرنا اس کی جانب ایک قدم ہے ۔تاہم کچھ لوگوں کی جانب سے اس عدالتی نظام پر تحقیق کیے بغیر ہی تنقید کے نشتر چلانے شروع کر دیے گئے اور حکومت کو اس پر سخت سے سخت کارروائی کرنے کی ترغیب دینے کی کوشش کی گئی۔ یہاں تک کہ اسے ریاست کے اندرایک ریاست قرار دیا گیا ۔ اس سلسلہ میں جب الدعوۃ کے لوگوں سے بات ہوئی تو انہوں نے اس عدالت کے وجود کا انکار کرتے ہوئے اسے ایک ثالثی کونسل کا نام دیا اور کہا کہ یہ کونسل 90کی دہائی سے لوگوں کے جھگڑوں کا حل شریعت کی روشنی میں پیش کر رہی ہے اور فریقین کی رضامندی کے ساتھ کونسل ثالثی کا کردار ادا کرتی ہے اب تک ہزاروں مقدمات کا فیصلہ کیا گیا اور اس پر کسی فریق نے اعتراض نہیں کیا ۔ میری معلومات کے مطابق کچھ مقدمات ایسے بھی تھے جس میں جماعۃ الدعوۃ کے اپنے ذمہ داران کو کٹہرے میں لایا گیا حتی کہ حافظ سعید بھی اس عدالت کے سامنے کچھ مقدمات میں پیش ہو چکے ہیں ۔قوم اپنے حکمرانوں سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ اگر انہیں فوری اور سستا انصاف دینے میں ریاست ناکام ہو گئی ہے تو وہ کہاں جائیں ۔

حکومت کو تو ایسے اداروں سے سبق سیکھنا چاہیے بلکہ اس نظام کی حمایت کر کے اسے قانونی حیثیت دینے کے لیے کوئی نظام وضع کرنا چاہیے تاکہ اس کے خلاف بھی اگر کوئی شکایت ہو تو اس پر بھی کارروائی کی جائے ۔ اس وقت جماعۃ الدعوۃ کی تمام قیادت اور بالخصوص سوشل میڈیا کی ٹیم بیک فٹ پر ہیں اور مسلسل وضاحتیں دے رہے ہیں تاہم اس پربیک فٹ پر جانے کی بجائے کھل کر سامنے آنا چاہیے اور اپنے مثبت اقدامات لوگوں پر پیش کریں اگر اس میں کوئی قانونی سقم ہیں تو قانونی ماہرین سے رائے لی جا سکتی ہے تاہم لوگوں کو فوری اور سستا انصاف وقت کی ہم ضرورت ہے ۔

[pullquote]سیدنا علیؓ نے کہا تھا کہ ریاست انصاف کی فراہمی کے بغیر ذیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتی ۔[/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے