کلبھوشن یادیو… توقعات اور حقائق

امریکہ کی جنگ آزادی (1775-1783) کے دوران دو ایسی شخصیات کے نام امتیازی حیثیت سے تاریخ کا حصہ بنے جن کے عہدے تو کوئی قابل ذکر نہ تھے لیکن ان کے غیر معمولی کام نے انہیں بے پناہ شہرت اور اہمیت سے نوازا ۔ جنوبی امریکہ کی 13 برطانوی کالونیوں نے آزاد ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے قیام کا اعلان کیا تو برطانوی قابض افواج باغیوں کی سر کوبی کے لئے میدان میں نکل پڑیں اور پھر یہ مسلح تصادم تقریباً 8برس تک جاری رہا۔

ناتھن ہیل Nathan hale امریکہ کی آزادی کے لئے لڑنے والی کانٹیننٹل آرمی میں فرسٹ لفٹیننٹ کے عہدے پر فائز تھا۔ جب برطانوی افواج بٹیل آف لانگ آئی لینڈ کے نتیجے میں نیویارک شہر پر قابض ہو چکی تھیں تو ستمبر 1776ء میں ناتھن ہیل نے اپنے افسروں کو دشمن کے عقب میں جا کر جاسوسی کرنے کی پیش کش کی۔ اس کام کی سزا موت تھی۔ خیر ناتھن برطانوی فوج کے زیرقبضہ علاقے میں جا کر کام کرنے لگا اور کچھ عرصہ بعد قابض فوج کے ہتھے چڑھ گیا اور اسے پھانسی دے دی گئی۔

پھانسی کے وقت ناتھن کی عمر 21 برس تھی۔ جب اسے پھانسی دی جارہی تھی تو اس کے منہ سے نکلنے والے آخری الفاظ یہ تھے۔ ’’میری زندگی کا واحد تاسُف اور پچھتاوا بس یہی ہے کہ اپنے وطن پر قربان کرنے کے لئے میرے پاس صرف ایک ہی زندگی ہے۔‘‘یہ فقرہ امریکی تاریخ اور معاشرتی ورثہ کا قابل فخر حصہ ہے۔ ناتھن ہیل کو قومی ہیرو قرار دیا گیا اس کے مجسمے امریکہ میں مختلف مقامات پر ایستادہ ہیں امریکی عوام اپنے اس ہیرو کا ذکر فخر کے ساتھ کرتے ہیں اور انہیں ایسا ہی کرنا چاہئے۔

میجر جان اینڈری Major johan Andre امریکی حُریت پسندوں کے خلاف لڑنے والی قابض برطانوی فوج کا ایک افسر تھا۔ اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کی وجہ سے فلاڈیلیفا اور نیویارک پر برطانوی قبضے کے بعد اسے ایجوٹنٹ جنرل بنا دیا گیا تھا۔ ایک برس بعد یعنی 1779ء میں وہ ایک اہم امریکی گریژن ویسٹ پوائنٹ کے کمانڈر جنرل بینیڈکٹ آرنلڈ کو 20 ہزار پاونڈ کی رقم کے عوض اپنے زیرِ کمان فوجی اڈا برطانوی فوج کے سامنے سرنگوں کرنے پر راضی کر چکا تھا۔ پھر یہ ہوا کہ اسے نیویارک کے مضافاتی علاقے میں سول کپڑوں میں سفر کرتے ہوئے امریکی فوجیوں نے گرفتار کر لیا۔ اس سے جعلی پاسپورٹ بھی ملا جو اسے جنرل آرنلڈ نے فراہم کیا تھا۔ میجر جان اینڈری کو 2اکتوبر 1780 کو 30 برس کی عمر میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ برطانوی قوم کے نزدیک وہ ہیرو ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ westminster abby ویسٹ منسٹر ایبے کے شاہی قبرستان میں دفن ہے۔ یہ دونوں جاسوس ایک جیسے انجام سے دو چار ہوئے گو کہ ناتھن ہیل کی جدوجہد ایک مبنی بر حق مقصد کے لئے تھی کہ وہ اپنے وطن کو بیرونی حملہ آوروں سے آزاد کرانا چاہتا تھا۔ بالکل اسی طرح جیسے کشمیر پر بھارتی قبضے کے خلاف جدوجہد کی جائے اور ایسا کرتے ہوئے کسی کو جان کی قربانی دینا پڑے۔ دُوسری طرف میجر جان اینڈری ایک نو آبادیاتی قابض فوج کا حصہ تھا جو امریکہ پر اپنا قبضہ برقرار رکھنا چاہتی تھی‘ بالکل اسی طرح جیسے کلبھوشن یادیو بھارت کے سامنے پاکستان کو کمزور اور بے دست و پا کرنے کے مشن کا سپاہی اور بھارتی سرکار اور عوام کا ہیرو ہے۔

یہ الگ بات ہے کہ پاکستان میں متحرک دانشوروں کا ایک مخصوص گروہ اور ان کے افکار سے متاثر لوگ جنہوں نے بھارتی جاسوس کی گرفتاری پر مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے‘ پاکستان کے ہیروز کو معتوب کرنے اور انہیں ولن کے طور پر پیش کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ان کے لئے یہ صورتحال بہت ناخوشگوار ہے۔ یہ انہیں بھارت کے ساتھ دوستی کے خواب کی تعبیر میں رخنہ ڈالنے کی سوچی سمجھی سازش نظر آتی ہے۔ حالانکہ باہمی تنازعات کے پس منظر کے ساتھ کمزور کی طاقتور کے ساتھ دوستی ایک سنگین مذاق سے زیادہ کچھ نہیں۔ پاک بھارت دوستی کے یہ سفیر اب اس انتظار میں ہیں کہ بھارتی جاسوس کی گرفتاری کا جواب دینے کے لئے متوقع بھارتی ڈرامہ شروع ہو، تا کہ وہ بھی میدا ن میں آ سکیں۔

خالص تکنیکی نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو کلبھوشن یادیو کی گرفتاری سے ظاہرہوتا ہے کہ ’’را‘‘ کو پاکستان میں اپنی سرگرمیاں کرنے کے لئے کسی خاص مشکل کا سامنا نہیں۔ اس کی وجوہات بہت واضح ہیں۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں ایسے لوگ مل جائیں گے جو مسلک کی بنیاد پر ریاست پاکستان کی بجائے سعودی عرب یا ایران کے وفادار ہیں۔ یہاں پر لاکھوں ایسے لوگ مل جائیں گے جو ریاست کے مفادات کے بجائے اپنی سیاسی جماعت بلکہ سیاسی جماعت کے قائدین کے مفادات کو ترجیح دیتے ہیں، جس کے ساتھ ان کا اپنا مفاد بھی لازماً وابستہ ہوتا ہے۔

مذہبی‘ گروہی اور علاقائی مفادات میں بٹی ہوئی اس قوم کے لوگوں کو خریدنا کون سا مشکل کام ہے۔ پتہ نہیں کتنے کلبھوشن یادیو ہمارے اردگرد دندناتے پھر رہے ہیں۔ خود کلبھوشن یادیو کے چہرے پر جو تاثر ہے اور جس طرح وہ بات کرتا ہے وہ ہمیں امریکی ایجنٹ ریمنڈ ڈیوس کی یاد دلاتا ہے۔کم از کم کلبھوشن کو دیکھ کر ایسا ہی لگتا ہے جیسے وہ سمجھتا ہے کہ پاکستان اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، جیسے ایک سپر پاور کے جاسوس کو کسی طفیلی ملک کی ایجنسیوں نے پکڑ لیا ہو۔

تیسرا اہم نکتہ اس معاملے میں ہمارے نزدیک یہ ہے کہ اس گرفتاری کی بنیاد پر ہمارا میڈیا جس عالمی انقلابی ردعمل کی توقعات پیدا کر رہا ہے اس میں کوئی جان نہیں۔ دنیا کے اہم ملک بھارتی سرگرمیوں سے پوری طرح آگاہ ہیں اور پاکستان کو کمزور کرنا ان عالمی طاقتوں کے ایجنڈے ہی کا حصہ ہے ‘ سو اس گرفتاری پر بھی امریکہ‘ برطانیہ اور ان کے حواریوں کی طرف سے یہی پیغام موصول ہو گا کہ پاکستان ماضی اور ماضی سے وابستہ کشمیر اور سیاچن کے معاملات کو فراموش کر کے بھارت کا اعتماد بحال کرے تاکہ وہ پاکستان کو اپنی دوستی کے اعزاز سے سرفراز کر سکے۔ لہٰذا اس کیس کو کہیں بھی لے جائیں آپ کو تعاون کی پھوٹی کوڑی بھی نہیں ملے گی۔

کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کے ساتھ شریف خاندان کی شوگز ملز کا تذکرہ بھی زبان زد عام ہے، تو اس سے یہ بات ظاہر نہیں ہوتی کہ ہمارے حکمران بھی ’’را‘‘ کے نیٹ ورک کا حصہ ہیں، لیکن یہ ضرور پتی چلتا ہے کہ شوگر ملز اور شکر سازی میں بھارت دنیا کا سب سے ترقی یافتہ ملک ہے اور اس صنعت میں بھارتی ماہرین دنیا میں حرف آخر ہیں۔ اس سے یہ بھی عیاں ہوتا ہے کہ ہمارے حکمران پاکستان کے بارے میں اطلاعات اور معلومات حاصل کرنے کی بھارتی بھوک کی شدت سے بالکل بھی آگاہ نہیں اور اس بات پر مکمل یقین رکھتے ہیں کہ شوگر ملز کے کنسلٹنٹ خود کو شوگر ملز تک ہی محدود رکھیں گے حالانکہ تاریخ بتاتی ہے کہ جاسوس کھلاڑیوں کی شکل میں بھی دشمن ملکوں میں جاتے رہے ہیں۔ 2005ء کے زلزلے میں بھارت نے اپنے ہیلی کاپٹر مدد کے لئے بھیجنے کی پیش کش کی تھی لیکن ہم نے معذرت کر لی تھی۔

کشمیر سنگھ‘ سربجیت سنگھ اور رویندر کوشک کی طرح کلبھوشن یادیو بھی بھارتی جاسوس ہے جسے بھارت کو واپس کر دینے یا پھانسی پر لٹکا دینے سے بھارتی عزائم تبدیل نہیں ہوں گے۔ اسی طرح پاکستان میں موجود بھارتی مفادات کے محافظ بھی اپنا موقف نہیں بدلیں گے اور نئے دلائل کے ساتھ لیس ہو کر ہر قیمت پر بھارت کے ساتھ دوستی کی وکالت کے لئے کھڑے ہو جائیں گے۔ ہماری بقاء اس میں ہے کہ ہم اپنی صفوں کے اندر چھپے دشمنوں کے باطل دلائل کے سحر سے باہر نکل کر دوست کو دوست اور دشمن کو دشمن سمجھنے اور کہنے کی جرأت پیدا کریں۔

اکنامک کوریڈور جس کو ناکام بنانے کے لئے بھارت مرا جا رہا ہے، ہماری غیرت کا تقاضہ یہ ہے کے اس کی تکمیل کا عرصہ پندرہ سے پانچ برس تک لے آئیں۔ اس سے بہتر کوئی جواب نہیں ہو سکتا۔ جس دن ہم اس حقیقت کا ادراک کر کے یکسو ہو جائیں گے اسی دن سے ہماری بقا ء کو لاحق خطرات چھٹنے لگیں گے۔

بشکریہ‌:روزنامہ‌ایکسپریس‌

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے