حلوہ کہانی

پرانے زمانے کی بات ہے کہ کسی ریاست کے بادشاہ کا انتقال ہوگیا بادشاہ کی کوئی اولا د نہیں تھی،ریاست کے قانون کے مطابق ولی عہد نہ ہونے کی وجہ سے صبح سویرے جو شخص پہلے شہر میں داخل ہونا تھا اسی کو بادشاہ بنانا تھا۔سو وزیر نے چند اہم افراد کو کہا کہ وہ شہر کے داخلی دروازے پر ڈیوٹی دیں تاکہ جو بھی شخص صبح سویرے داخل ہوں قانون کے مطابق اقتدار اس کے حوالے کیا جائے،خدا کا کرنا یوں ہوا کہ صبح سویرے ایک ایسا شخص شہر میں داخل ہوا جس کو نہ تو اقتدار کا پتہ تھا اور نہ آداب کا،لیکن حلوہ کھانے کا شوقین تھا، قانون کے مطابق اسے بادشاہ بنا دیا گیا.

بادشاہ بننے کے بعد اس سے ریاست کے حوالے سے پہلا حکم جاری کرنے کا کہا گیا تو اس نے کہا کہ حلوہ پکائو خود بھی کھائو اور مجھے بھی کھلائو،وزیر اور دیگر درباریوں کے لئے یہ بات انہونی تھی لیکن وہ قانون کے مطابق حکم پر عملدرآمد کے پابند تھے،سو حلوہ کی دیگیں چڑھا دی گئی حلوہ بنا سب نے کھایا،

بادشاہ نے دوسرے دن دوبارہ حکم دیا حلوہ پکائو خود بھی کھائو اور مجھے بھی کھلائو۔

وزیر اور درباری حیران تھے لیکن حکم کی بجا آوری کے پابند بھی

یہ سلسلہ کئی دن چلتا رہا اور اس ریاست سے نکل کر دوسری ریاستوں تک پہنچ گیا،ہمسایہ ریاست کے حکمران نے اپنی ریاست کو وسیع کرنے اور اس علاقے پر قبضہ جمانے کی حکمت عملی تیار کی، فوجوں کو سرحد پر آگے بڑھنے کا حکم دیا گیا.

اگلی صبح بادشاہ کو سپہ سالار کی طرف سے آگاہ کیا گیا کہ ہمسایہ ریاست کی فوج حملے کے لئے تیار ہے حکم دیجیئے کی مقابلہ کیا جائے بادشاہ نے بات سنی اور کہا حلوہ پکائو خود بھی کھائو مجھے بھی کھلائو،سارے وزراٗ حلوے بنانے کھانے اور کھلانے میں مصروف رہے اور آخر کار دشمن نے محل بھی فتح کر لیا جہاں اسے حلوے کی دیگیں اور حلوے کھاتے ہوئے لوگ ہی ملے۔

کچھ ایسا ہی حال ہماری ریاست کو بھی ہے جو آتا ہے حلوہ کھاتا ہے شور اٹھتا ہے اور پھر چپ کر کے وہ سائیڈ پر چلا جاتا ہے اور ایک اور چہرہ سامنے آتا ہے۔۔۔کچھ سمجھ نہیں آتا کیا ہو رہا ہے۔جو سنا جو پڑھا جو دیکھا اس میں مفاد اور حلوہ ہی نظر آیا کہیں اقتدار کی خواہش نے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تو کہیں اقتدار تو طول دینے کےلئے لوگوں کا خون بہایا گیا،، کہیں نظام مصطفیٰ اور اسلام کا نام لیکر اپنے اپنے اقتدار کو طول دی گئی کبھی کوئی اقتدار میں آیا تو سوئس بینکوں میں اربوں ڈالر رکھنے کے الزام سامنے آئے تو کبھی سرے محل خریدنے اور لندن میں فلیٹس خریدنے کی باتیں ہوئیں،کرپشن کے الزامات پر حکومتوں کو بر طرف کیا گیا،تو کہیں روشن خیالی اور ماڈریٹ ازم کا حلوہ پکانے کی کوشش کر کے اپنے اقتدار کو طول دیا گیا،کبھی رینٹل پاوور میں اور کبھی حج آپریشن میں کرپشن کی داستانیں سامنے آئیں،کہیں راٗ سے فنڈنگ کا معاملہ آیا تو اب پانامہ لیکس نے ایک نئی داستان بیان کر ڈالی.

مختصر یہ کہ ہر حکومت اور ہر بر سراقتدار شخص کے حلوہ کھانے اور کھلانے کے حوالے کہانیاں سامنے آئیں لیکن کبھی بھی اس حوالے سے عوام کو باتوں کے علاوہ کچھ نہیں دیا گیا،کمیشن بنے اور ختم ہو گئے کسی نے دس پرسنٹ کے الزام سجائے تو کسی نے منی لانڈرنگ کے ،کیا اس طرح حلوہ کی داستانیں زبان زد عام ہونے کے باوجود بھی ہمارے حکمرانوں کو ہوش نہیں آئے گا کہ وہ اس حوالے سے حقائق عوام کے سامنے لائیں جنھوں نے ان پر اعتبار کیا اور انہیں بار بار مسند پر بٹھایا،یا انکی حکمت عملی صرف ہر بار حلوہ کھانے پر ہی رہے گی،کم سے کم اب تو حلوہ کھانے کی داستانیں ختم ہونی چاہیئے عوام یہ نہیں چاہتے کہ صرف پانامہ لیکس کے حوالے سے حقائق سامنے آئیں وہ یہ چاہتے ہیں کہ سرے محل،سوئس اکائونٹس اور دیگر جن ذرائع سے بھی اس قوم کے پیسے کو لوٹا گیا اس حوالے سے حقائق سامنے لائے جائیں اور لوٹا ہوا پیسہ واپس لایا جائے،لیکن اسکےلئے ضرورت ہے اس قوم کا درد رکھنے والے رہنماٗ کی جو قوم کو لوٹنے والے تمام سیاسی اور غیر سیاسی افراد اور اقتدار کے پجاریوں کا احتساب کر سکے اور اس ریاست کو اسکا حق دلا سکے جہاں کوئی حلوہ خور نہ ہوبلکہ عوام کا خدمت گزار بن کر رہے۔۔۔۔۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے