کیا ہم زندہ قوم ہیں؟

بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ ہم ایک زندہ و جاوید قوم کے فرد ہیں ہر سال 14 اگست یوم آزادی کے ترانوں میں سے ایک ترانہ یہی یاد دلاتا ہے کہ ہم زندہ قوم ہیں۔ یونیورسٹی میں سیاسیات کے طالب علم کی حیثیت سے اس موضوع پر میری دلچسبی بڑھتی گئی کے انسانوں کے بے ہنگم گروہ اور ہجوم قوم کیسے بنتے ہیں۔اور ریاست کیسے تشکیل پائی ہے

جدید سیاسی تاریخ میں انقلاب فرانس نے قومیت سازی میں اہم کردار ادا کیا عوام نے منظم ہو کہ بادشاہت اور کلیساکے استحصال کو شکست دی اور یوں آزادی ،مساوات اور تمام شہریوں کا برابر ہونا فرانس کے آئین کا بنیادی نظریہ ٹھہرا.انقلاب فرانس سے قبل فرانس کی اسی فیصد زمین کی مالک شاہی خاندان اور کلیا تھے دونوں اشتراک عمل سے بلاشرکت غیرِاقتدار پر قابض تھے۔ انقلاب فرانس نے ثابت کر دکھایا کہ طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں اور شاہی خاندان کی اقتدار اور اداروں پر بالا دستی قبول نہیں کرتے۔

انقلاب فرانس کے نتیجے میں عوام ایک قوم بننے اور قوم نے ریاست کو جنم دیا۔ اسکے برعکس اگر تحریک پاکستان میں قوم سازی کے عمل کا جائزہ لیا جائے تو بلاشبہ تحریک پاکستان ایک جدید ترقی پسند جمہوری سیاسی تحریک تھی۔قائد اعظم اور اقبال کی اس تحریک سے وابستگی اور کردار کی قول و فعل تضاد کا شکار نہ تھا۔

یہی وجہ ہےکہ پچھلی صدی میں دنیا میں سب سے بڑی ہجرت جس میں برصغیر کے مسلمانوں نے جان مال کی قربانی دیتے ہوئے ایک جداگانہ مملکت پاکستان میں شمولیت اختیار کی۔ قائد اعظم کی وفات کے بعد تحریک آزادی کے خواب دھندلا گئے۔ وہ مذہبی اور عسکری طبقات جن کا تحریک پاکستان میں کوئی واضح کردار نہ تھا ،وہ پاکستان کے ٹھیکےدار بن گئے۔

مذہبی طبقے نے پاکستان کو اسلام کا قلعہ اور ریاست کی تشکیل میں اسلام کے کردار کو اہم جزو قرار دیا اور یوں نظریہ پاکستان کی تشریح اس بنیاد پر کی جانے لگی کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا۔عسکری اشرفیہ نے جنرل ایوب خان کے اقتدارپر فائز ہونے کے بعد پاکستان کو قومی سلامتی ریاست کے سانچے میں ڈھال دیا۔ اور یوں قیام پاکستان کی بڑی وجہ مسلمانوں کی پسماندگی،غربت، اور استحصال کے خاتمے کے لئے فلاحی ریاست کا خواب بکھرتا چلا گیا اور حقیقی آزادی کی منزل دور ہوتی چلی گئی۔

وکی لیکس،پانامہ لیکس، مہران بنک سیکنڈل۔ اصغر خان کیس ایبٹ آباد کمیشن، سقوط مشرقی پاکستان اور حمود الرحمان کمیشن رپورٹ جیسا کوئی بھی بڑا بحران سانحہ اس قوم کو بیدار نہ کر سکا۔ معروف تحقیقاتی صحافی عمر چیمہ پاکستان میں ٹیکس کلچر کو فروغ دینے کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔ عمر چیمہ نے صحافت کو ایک مقصد اور مفاد عامہ کے لئے استعمال کیا اس راہ میں کڑی آزمائش بھی آئیں لیکن عمر چیمہ نے قلم کی حرمت پر سمجھوتہ نہ کیا۔

حالیہ پانامہ لیکس اسکیندل میں عالمی صحافیوں کی کمیٹی کا عمر چیمہ بھی حصہ تھے۔ اس اسکینڈل نے دنیا کے طاقتور حکمرانوں کے ناجائز اثاثےاور غیر قانونی ذرائع سے حاصل کی گئی دولت کو جہاں بے نقاب کیا وہیں بہت سے قانونی سیاسی اور اخلاقی سوالوں کو جنم دیا۔ معروف صحافی روف کلاسرہ بھی یہ سوال اُٹھانے لگے کہ اس اسکینڈل کے نتیجےمیں آئس لینڈ جیسے چھوٹے ملک میں اتنی بڑی سیاسی تبدیلی آئی لیکن پاکستان جیسے بڑے ملک میں بیس ہزار با ضمیر لوگ بھی سڑکوں پر نہ آسکے۔

کیا ہم بحثیت قوم بے حس احساس سے عاری اور کرپشن پر سمجھوتہ کر چکے ہیں۔ اس سوال کا جواب تلاش کرتا ہوں تو یہ دیکھتا ہوں کے بانیِ پاکستان ایک ایک پائی کا حساب رکھتے اور قائد اعظم اپنے عہد کے مہنگے ترین وکیل ہونے باوجود ٹیکس ادا کرتے اور اپنے مالی معاملات میں شفافیت کے قائل تھے۔قائد اعظم اپنے اثاثے خاندان اور بچوں کے بجائے پاکستان کے تعلیمی اداروں کو وقف کر گئے۔
جاوید اقبال نے جب دوران تعلیم علامہ اقبال سے مہنگے گرامو فون کی فرمائش کی تو اقبال نے انہیں یہ نصحیت کی کہ

میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر

لیکن آج جو قومیں بلند مقاصد سے محروم ہو جاتیں ہیں وہ چھوٹے مقاصد کو ہی نصب العین بنا لیتی ہیں، لہذا حسین نواز ہوں،مونس الہیٰ ہوں۔ جنرل اختر عبدالرحمان کے بیٹے ھمایوں اختر ہوں، سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے بیٹے ارسلان افتخار ہوں،یا جنرل کیانی کے بھائی ہوں سب خودی کو بیچ کر امیری میں نام کو پیدا کرنا چاہتے ہیں اور ہماری اشرافیہ قوم کے بچوں کا مستقبل بنانے کے کے بجائے اپنے بچوں کے نیو یارک پیرس اور لندن میں آسودہ زندگی تشکیل دینا چاہتی ہے۔

آئس لینڈ کے عوام کے لئےیقیناً یہ ایک انکشاف تھا جس نے حکمرانوں کے چہروں سے نقاب الٹ پھینکا لیکن پاکستان آئس لینڈ نہیں کیونکہ غلام قومیں تو اپنے حکمرانوں کے بیرونی اثاثوں نا جائز ذرائع آمدنی سے حاصل شدہ دولت پر ناز کرتی ہیں اور ان کے بچوں کی وراثت پر رشک کرتی آئی ہیں ۔

لہذا آج پاکستانی سماج میں مذہبی سیاسی اور جاگیروارانہ سرمایہ دارانہ اشرافیہ میں وراثت کو اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت اور نعمت سمجھا جاتا ہے ۔ ہم قوم اس وقت بنیں گے جب غربت اور افلاس سے ستائے ہوئے لوگ اپنے ہاتھوں سے اپنے بچوں کا گلہ گھونٹنے کے بجائے حکمرانوں کے بچوں کا گریبان پکڑ کہ ان سے ناجائز اثاثے اور دولت کے انبار کا حساب طلب کریں گے اور ہم قوم تب بنیں گے جب عوام میں اجتماعی شعور کے نتیجے میں اجتماعی عمل جنم لے گا۔

اور قانون کی حکمرانی اور آزاد ادارے تشکیل پائیں گی ،اس دن ہمیں اس قومی ترانے کی ضرورت نہ رہیے گی ،کہ ہم زندہ قوم ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے