”بیرونی ہاتھ” کیاہوتا ہے؟

سب سے زیادہ قابلِ رحم شخص وہ ہے جو اپنی غلطی تسلیم کرنے کے بجائے اسے دوسروں کے سر تھوپنے کی کوشش کرتا ہے اور نتیجے میں اپنی ہی اصلاح کی راہ کو تنگ کرتے ہوئے اپنے ضمیر کوایسی طفل تسلیوں کے سراب میں گم کر دیتا ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ جبکہ اصول یہ ہیکہ غلطی تسلیم کرنا کامیابی کی راہ کا پہلا اور نہایت اہم سنگِ میل ہوتا ہے پھر چاہے وہ کامیابی نظری ہو یا مادی اور اسکا تعلق فردِ واحد سے ہو یا پوری قوم سے، ترقی ہمیشہ وہی کرتے ہیں جو اپنی غلطیوں پر گہری نظر رکھتے ہیں اور سیکھتے وہی ہیں جن میں اپنی خطاؤں کا سامنا کرنے کی ہمت ہوتی ہے۔

بحیثیت مجموعی ہمارا سب سے بڑا المیہ یہی ہیکہ عرصہ دراز سے ہم اپنی غلطیوں کا ذمہ دار کسی اور کو ٹہراتے چلے آ رہے ہیں اور نظریاتی طور پر اس طرزِ عمل نے ہمیں جتنا نقصان پہنچایا ہے اسکا اندازہ لگانا بھی بہت دشوار ہے۔ اسی سوچ کا نتیجہ ہیکہ آج ہم خود اپنی ذات سے جھوٹ بولنے کے عادی ہو چکے ہیں، ہمیں صرف وہ سچ اچھا لگتا ہے جو ہماری انا کو تسکین پہنچا رہا ہو، ہم صرف وہ حقیقت قبول کرتے ہیں جو ہمارے قلبی میلان اور رجحان کی ترجمانی کرتی ہو اور حد تو یہ ہیکہ ہمیں اسلام بھی وہ چاہیے جو ہمارے ذاتی جذبات کی ترجمانی کرتا ہو پھر چاہے "اسوہ” اس سے کتنا ہی مختلف کیوں نہ ہو ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اسی طرزِ فکر کا نتیجہ ہیکہ آج ہمیں ہر کام میں، جو ہماری منشا کے مطابق نہ ہو، بیرونی ہاتھ اور ہر فیصلے کے پیچھے، جو ہمارے جذبات کی تسکین نہ کرتا ہو، بیرونی طاقت نظر آتی ہے۔ ہم بڑی خوبصورتی سے اپنے ضمیر کو یہ "بیرونی” لالی پاپ پکڑاتے ہیں اور اپنے آپ کو برئ الذمہ قرار دیتے ہوئے اپنی غلطی کا ملبہ اپنے سر سے اتار پھینکتے ہیں۔

مجھے آج تک اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ وہ کونسا بیرونی ہاتھ ہے جو ہماری روز مرہ کی زندگی میں بھی دخل دینے سے باز نہیں آتا؟ آخر ایسی کونسی بیرونی طاقت ہے جو ہماری رگوں میں خون کے ساتھ دوڑتی ہے اور ہم سے ہر وہ کام کرواتی ہے جس کی اجازت نہ تو ہمارا دین دیتا ہے اور نہ ہی اخلاق؟ آخر ایسا کونسا طلسم ہے ان بیرونی قوتون کے پاس کہ جس کے ذریعے وہ ہمارے انتہائی ذاتی قسم کے معاملات کی باگ دوڑ بھی سنبھال لیتیں ہیں؟ وہ کونسی بیرونی طاقت ہے جس نے ہمیں اسلام کی بجائے مسلک کا سپاہی بنا کر ہماری پہچان تک بدل دی ہے کہ کل تک جو لوگ مسلمان کے نام سے پہچانے جاتے تھے آج وہ بریلوی، دیوبندی، وہابی اور شیعہ کے نام سے جانے جاتے ہیں، کل تک جو مساجد اللہ کا گھر ہوا کرتی تھیں آج وہ مسالک کا قلعہ ہیں۔

یہ کونسی بیرونی طاقت ہے جوایک طرف تو بریلوی کے منہ میں اپنے الفاظ ڈال کر دیوبندی اور وہابی کو گستاخ قرار دلواتی ہے تو دوسری طرف ان کے منہ میں الفاظ ڈال کر بریلوی کو مشرک اور کافر کے خطاب سے نوازتی ہے؟ یہ کونسا بیرونی ہاتھ ہے جو قرآن و حدیث کا اس قدر ماہر ہیکہ ہرفرقے سے انکی الگ تشریح و تفسیر کرواتا ہے؟ کیا یہ بھی بیرونی ہاتھ ہی ہے جو ہم سے دین و دنیا میں کرپشن کرواتے ہوئے دینی و دنیاوی غیرت کے نام پر ایسی ایسی حرکتیں کرواتا ہیکہ الامان والحفیظ ۔ یہ کونسا بیرونی ہاتھ ہے جو ہر مسجد، مدرسہ اور سیاسی جماعت تک کو صدقہ، زکاة اور قربانی کی کھالیں جمع کرنے کا اجازت نامہ دیتا ہے پھر چاہے اس میں "مصرف” کی شرائط عنقا ہی کیوں نہ ہوں۔

یہ کیسی بیرونی طاقت ہے جو ہم سے مرچوں میں برادہ، ادرک میں تیزابی پانی، جعلی کالی مرچیں، انتڑیوں سے کھانے کا تیل اور دو نمبر دوائیاں بنواتی ہے؟ یہ کونسی بیرونی طاقت ہے جو ہمیں رشوت لینے اور دینے پر مجبورکرتی ہے؟ آخر یہ کونسی بیرونی طاقت ہے جس نے ہمارے ذریعے سے اسلام کی اصل روح کو مجروح کر کے رکھ دیا ہے؟ یہ کونسی طاقت ہے جو میلاد کے نام پر ہم سے ایسی ایسی حرکتیں کرواتی ہیکہ شیطان بھی شرما جائے، یہ کونسی طاقت ہے جو ہمیں منبر و محراب کا تقدس بھلا دیتی ہے؟ آخر کونسی طاقت کے زیر اثر ہم اپنی نہایت مقدس ہستیوں کے نام پر سجائی جانے والی محفلوں میں جوشِ خطابت کے زور میں مغلظات بکنے لگتے ہیں؟

جی نہیں ایسی کوئی بیرونی طاقت نہیں جو ہم کو یہ سب کرنے پر مجبور کرتی ہے یہ صرف ہمارا نفس ہے جو ہم پر حکومت کر رہا ہے، یہ ہماری انا ہے جس کو ہم نے اسلام کا مقدس لبادا اوڑاھ ہے، غلطی ہم کرتے ہیں اور پھر اپنی انا کی تسکین کے لیئے الزام کسی بیرونی ہاتھ پر ڈال دیتے ہیں۔ اس لیئے جب تک ہم یہ تسلیم نہیں کر لیتے کہ اپنی موجودہ حالت کے سب سے بڑے اور پہلے ذمہ دار ہم خود ہیں اسوقت تک ناں تو ہماری اصلاح ہو سکتی ہے اور نہ ہی ہم دینا میں اپنی کوئی قابل قدر پہچان بنا سکتے ہیں اور قدرت کا قانون بھی یہی ہے کہ جو خود کو نہیں بدلتا اسکی حالت کو بھی نہیں بدلا جاتا۔

ہمیں آج یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہمیں آپنی آنے والی نسل کو کس رنگ میں رنگنا ہے تفرقہ بازی اور مذہبی منافرت کے رنگ میں یا بردباری اور اتحاد کے؟ آنے والے معاشرے کو ہم کیا دینا چاہتے ہیں، ایک سلجھی ہوئی سمجھدار نسل یا پھر دھوکہ دہی، جھوٹ، بد تمیزی اور گھٹیا کردار پر مشتمل افراد کا ریوڑ؟ ہماری آج کی سوچ کل کا معاشرہ تشکیل دے گی اور اس کی اچھائی یا برائی کے ذمہ دار مکمل طور پر ہم ہوں گے۔ اس لیئے جتنی جلدی ہم اپنی اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی غلطی کو تسلیم کر لیں گے اتنا ہی ہمارے حق میں بہتر ہو گا کہ سیکھنے کے لیئے پہلے بہرحال غلطی تسلیم کرنی پڑتی ہے۔ ہم غلطی کرتے ہیں اسی لیئے انسان ہیں وگرنہ تو فرشتے ہوتے اور انسانیت کی عظمت غلطی تسلیم کرنے میں ہے نہ کہ دوسروں کے سر تھوپنے میں کہ سیکھنے کا عمل شروع ہی غلطی کی سیڑھی سے ہوتا ہے اورجب غلطی اجتماعی ہو تو اسکے ماننے اور نہ ماننے کے اثرات بھی اجتماعی ہی ہوتے ہیں۔

اللہ ہم سب کو معاشرے میں تعمیری کردار ادا کرنےکی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے