میری ڈائری کا ایک ورق

ہاں میں مسلمان ہوں

لڑکپن تھا اور لڑکپن میں شوق بھی نرالے. . . کیونکہ اس عمر میں انسان نا سمجھ بھی ہوتا ہے اور بچگانہ حرکتوں سے بھی باز نہیں رہتا ۔ میں اپنے لڑکپن میں سکول ٹائم کے بعد دوستوں کے ساتھ شوق سے سینما میں فلم دیکھتا تھا اور فلم دیکھنے کے بعد دوستوں کے ساتھ کئی دنوں تک اس فلم پر بحث مباحثہ کرتا.

ایک دن ہمارے محلے میں ایک پیر صاحب آئے میری بھی ان سے ملاقات کرائی گئی. مجھے ان سے مل کر دلی سکون ملا ۔۔۔ جب پیر صاحب وہاں سے جانے لگے تو میں بھی ان سے الودا عی ملاقات کے لیے لائن میں کھڑا ہو گیا. وہ باری باری سب سے مصافحہ کرتے جب میری طرف آئے تو بڑی پیار بھری نظروں سے میری طرف دیکھا اور کہا بیٹا پانچ وقت نماز کی پابندی کرنا بے شک نماز ہی دلوں کو سکون مہیا کرتی ہے.

آخر وہ چلے گئے اور میں نے بھی دل میں تہیہ کر لیا کہ نماز کی پابندی کرونگا.

میں گھر آ گیا جیسے ہی ظہر کی اذان ہوئی میں نے وضو کیا اور قریب مسجد میں نماز پڑھنے چلا گیا میں جب نماز پڑھ کے باہر نکلا تو ابو کے دو دوست وہاں سے گزرے اور مجھے اس مسجد سے نکلتا دیکھ کر میری طرف آئے اور کہا بیٹا تمہارے والد تو بڑے ہی دین دار آدمی ہیں اور تم اس مسجد میں نماز پڑھنے آئے ہو یہ گستاخ لوگ ہیں جنکی مسجد میں نماز پڑھنے آئے ہو. میں نے توبہ توبہ کی اور گھر آگیا جب عصر کی نماز کا وقت ہوا تو اذان ملتے ہی میں اس سے اگلی والی مسجد میں نماز ادا کرنے چلا گیا نماز ادا کرکے میں مسجد کے ساتھ حجام والی دکان پر حجامت کے لیے گیا وہاں کافی رش تھا میرے کچھ جاننے والے بھی وہاں بیٹھے تھے میں بھی ان کے ساتھ بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار کرنے لگا.

اتنے میں میرا ایک پڑوسی جو وہاں پہلے سے موجود تھا طنزیہ لہجے میں کہتا واہ یار آج تو سر پر ٹوپی رکھ لی تو بھی مسلمان ہو گیا کیا اور تجھے یہ بھی نہیں پتا تو جہاں سے نماز پڑھ کے آرہا ہے یہ لوگ تو بدعتی ہیں اور انہوں نے دین میں نعوذ بااللہ کافی باتیں خود سے گھڑ لی ہیں نماز پڑھو یا نہ پڑھو ایک ہی بات ہے بابو۔

اس کی باتیں سن کر میں تھر تھر ا سا گیا اور ایک دم وہاں سے اٹھ کر گھر چلا گیا. کافی دیر پریشانی کے عالم میں بستر پر لیٹا چھت پر لگے پنکھے کی طرف دیکھتا رہا ٹائم کا پتا ہی نہیں چلا اور عشاء کی اذان ہوئی .

اذان ختم ہوئی اور میری پریشانی بڑھ گئی کہ اب کیا کروں اور کس مسجد میں جاؤں نماز کے لیے ۔ ۔ سوچتے سوچتے یاد آیا کہ میرے دوست عدیل کے گھر کے ساتھ جو مسجد ہے کیوں نہ وہاں جایا جاۓ سو میں نے ٹوپی سر پر لی اور اپنی گلی سے تین گلی چھوڑ کے چوتھی گلی عدیل کے گھر کے ساتھ والی مسجد کی طرف چل پڑا وہاں پہنچ کر نماز ادا کی دعا مانگی اور شکر ادا کیا کہ یا اللہ تو نے مجھے گنہگار ہونے سے بچا لیا اور اب میں نے یہ بھی فیصلہ کر لیا تھا کہ نماز یہاں آ کر پڑھا کرونگا. نماز ادا کرنے کے بعد مسجد سے باہر نکلا اور گھر کی طرف چل پڑا پھر خیال آیا کیوں نہ چوک والی دوکان سے دودھ سوڈا پی لوں میں دودھ سوڈے والی دوکان پر چلا گیا اور وہاں آرڈر کر کے کرسی پر بیٹھ گیا مجھے اندازہ نہ تھا کہ میرا ایک اور کلاس فیلو بھی اسی گلی میں رہتا ہے یہ تو مجھے تب پتا چلا جب وہ بھی اس دکان میں داخل ہوا اور آرڈر دے کر ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گیا مجھے لگاشاید اس نے مجھے نہیں دیکھا میں اس کی طرف بڑھا اس سے سلام لیکر اسکے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گیا وہ بھی مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوا اور پوچھا خیر ہے بھائی اس ٹائم یہاں اس گلی میں۔ ۔ کوئی چکر وکر تو نہیں ہے اب بھائی سے بھی چھپائے گا کیا اور زور سے ہنسنے لگا. . جب اسکی ہنسی رکی تو میں نے کہا یار دراصل میں ساتھ والی مسجد میں عشاء کی نماز پڑھ کر نکلا تو سوچا کیوں نہ یہاں سے دودھ پی لوں. . میری یہ بات سن کر اس کے چہرے کا رنگ اڑ گیا اور مجھے کہتا تم بھی. .؟

میں ایک دم سے چونکا اور اس سے پوچھا کیا تم بھی بتاؤ.. . ؟؟ وہ کہتا کچھ نہیں رہنے دے میں نے اسرار کیا تو اس نے دودھ کی دکان کے مالک جو کے اس کا اچھا دوست تھا اسکو بلایا ساتھ بٹھا کر میرا تعارف کروایا اور یہ بھی بتایا کہ میں ساتھ والی مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے تین گلیاں چھوڑ کر یہاں آیا ہوں اب آپ ہی اسکو بتا دیں میری تو نہیں مانے گا وہ آدمی مجھ سے مخاطب ہوا بھائی شکل سے تو آپ بہت سمجھدار لگتے ہیں اور امید یے میری بات کا برا بھی نہیں مانیں گے میں نے کہا نہیں نہیں آپ بولیں کیا بات یے تو وہ آدمی کہنے لگا کہ یار اس مسجد والے تو مشرک ہیں اور نعوذ بااللہ یہ شرک کرتے ہیں کئی بار علماء کرام ان کومشرک قرار دے چکے ہیں اسکی یہ بات سن کر میرے پیروں سے زمین نکل گئی اور میں دودھ پئے بغیر ہی وہاں سے اٹھ گیا اور گھر آ کر اپنے کمرے میں خود کو بند کر لیا اور مجھ پر عجیب سا خوف طاری ہوگیا جو کہ پہلے ایسا کبھی نہ ہوا تھا۔۔ کافی دیر کے بعد میں نے خود کو سنبھالا اور لیٹ گیا پتا نہیں چلا کب آنکھ لگی صبح دیر سے جاگ ہوئی جلدی جلدی نہایا اور سکول چلا گیا سکول میں بھی میری کیفیت عجیب تھی کچھ کرنے کا دل ہی نہیں کر رہا تھا اللہ اللہ کر کے چھٹی کا ٹائم ہوا گھر گیا بیگ رکھا منہ ہاتھ دھو کر کھانا کھایا اور تھوڑی دیر بستر پر لیٹ گیا لیٹے ہوئے پھر وہی خیال آیا اور عجیب سی کیفیت ہونے لگی خیال آیا دوست کے گھر چلا جاتا ہوں سائیکل نکالی اور دوست کے گھر کا رخ کیا راستے میں ٹریفک جام تھا میں ڈر سا گیا کہ کوئی حادثہ تو نہیں ہوا وہاں کھڑے لوگوں سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ بابو یہ روڈ سینما والی روڈ تک جام ہے بتا رہے ہیں آج ایک نئی فلم آئی ہے اور اسکا پہلا شو ہے سنا ہے بڑی جاندار فلم ہے اسکی بات کو سن کر میرے دل میں بھی ہلکی آواز میں شیطانی ٹون بجی کہ دوست کے گھر تک تو ٹریفک جام کی وجہ سے نہیں پہنچ سکتا کیوں نہ دوسرے روڈ سے شارٹ کٹ مار کر سینما پہنچ کر فلم دیکھی جائے سو ارادہ ہی کیا تھا کہ سائیکل خود بخود اس شارٹ کٹ کی طرف چل پڑی
سینما آگیا سائیکل اسٹینڈ پر لگایا ٹکٹ لائن میں کھڑا ہوگیا باری آئی ٹکٹ لیا اور اندر جا کروہاں اپنی نشست پر بیٹھ گیا فلم اسٹارٹ ہوئی اور سب لوگ اس نئی فلم کو دیکھنے کے لیے اپنی نظریں اسکرین پر جمائے ہوئے تھے فلم چل ہی رہی تھی کے وقفہ کا ٹائم ہو گیا انتظامیہ نے اسکرین بند کر کے لائٹس جلا دیں مگر لائٹس کے جلتے ہی میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے کیا دیکھتا ہوں کہ حقیقی فلم تو اسکرین بند اور لائٹس جلنے کےبعد شروع ہوئی ہے کہ وہاں تمام مسلکوں سے جڑے لوگ چپ چاپ ایک ساتھ بیٹھے اکٹھے فلم دیکھ رہے تھے. . . .

میرے اندر کئی سوالات نے جنم لیا مگر جواب کس سے پوچھتا کیوں کہ کوئی مجھے گستاخ، کوئی مجھے بدعتی اور کوئی مجھے مشرک کہہ کر چپ کرا دیتا. . . . .. . .. خاموشی میں بہتری جانی اور چپ چاپ ایک سینما میں بیک وقت دو فلمیں دیکھتا رہا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کافی عرصہ بعد اس واقعے کا سکول بریک ٹائم میں ایک دوست سے ذکر کیا تو اس نے کہا یار مجھے بھی دکھ ہوتا ہے کہ ہمارا دین تو بہت آسان ہے اسکو کسی سازش کے تحت جان بوجھ کر مشکل سے مشکل تر بنایا جا رہا ہے تاکہ فساد برپا ہو. . .

دوست کی بات میں وزن تھا سوال تو کافی تھے مگر اتنے میں گھنٹی بجی بریک ٹائم ختم ہوا اور ہم کلاس روم میں چلے گئے. . . . .

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے