شکریہ وجاہت مسعود صاحب

بھلا ہو وجاہت مسعود صاحب کا، مولانا شبیر احمد عثمانی علیہ الرحمہ کے بارے میں ان کے قلم کی جولانی نے وہ کام کر دکھایا ہے جو مولانا کے کسی حامی یا کسی اسلام پسند کی 100 تحریریں بھی نہیں دکھا سکتی تھیں۔ کئی فوائد اس کے بیک وقت سامنے آئے ۔

پہلا یہ کہ سب کو معلوم ہو گیا کہ وسیع المشرب ہو یا قلیل المشرب ، لبرل لبرل ہی ہوتا ہے، اور اسلام اور اس کی علامتوں اور حضرات علمائے کرام کے باب میں اس سے کسی نرمی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ بھلے وہ پاکستان کے حامی رہے ہوں یا مخالف ، ان کے ہاں یکساں طور پر وہ راندہ درگاہ ہیں۔ جلد یا بدیر کسی نہ کسی بہانے سے اس کے اندر چھپی نفرت اور حقارت سامنے آ کر رہتی ہے اور ان احباب کے لیے بالخصوص تریاق کا کام کرتی ہے جو ‘ معقولیت’ یا ‘ مکالمے ‘ جییسی خوش نما اصطلاحات سے متاثر ہو جاتے ہیں اور ان کے خیال میں لبرلز کے لیے باہمی احترام اور راواداری بھی کسی چیز کا نام ہوا کرتا ہے۔ برسوں کی محنت کے بعد اس تریاق کی فراہمی پر وجاہت صاحب کا شکریہ ادا کرنا تو بنتا ہے۔

دوسرا یہ کہ قرارداد مقاصد جو سیکولر اور لبرل طبقے کےلیے سوہان روح بنی ہوئی ہے، وہ صرف مولانا مودودی کا ہی کارنامہ نہیں بلکہ اصلا نوزائیدہ مملکت کے مسلمانوں کے خواب کی تعبیر تھی، خود وجاہت صاحب کے بقول اسے مولانا شبیر احمد عثمانی اور قائد اعظم کے معتمد خاص اور پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے مری میں بیٹھ کر لکھا تھا، اور اس وقت کی نمائندہ دستور ساز اسمبلی نے پاس کیا تھا۔ یہ بات اور ہے کہ جمہوریت کی بات کرنے والا سیکولر طبقہ جمہور کی بات ماننے سے انکاری تھا اور ہے۔ جب سیکولر لابی اس کارنامے کو مولانا مودودی سےمنسوب کرکے تنقید کا نشانہ بناتی ہے تو اس سے یہ تاثر دینا مقصود ہوتا ہے کہ یہ ایک پاکستان مخالف شخص کی ذہنی اختراع تھی اور اسے معاشرے میں ایک محدود طبقے کے سوا کسی کی حمایت حاصل نہیں ہے

تیسرا یہ کہ ریاست کی اسلامی شناخت سیکولر لابی کا اصل ہدف ہے، قرارداد مقاصد اس کی بنیاد فراہم کرتی ہے اس لیے پوری جانفشانی کے ساتھ اسے ہر خرابی کی جڑ، اور اس سے وابستہ ہر شخصیت کو داغدار ثابت کرنے پر زور صرف کیا جا رہا ہے۔ مولانا مودودی اور مولانا شبیر احمد عثمانی کے نشانے پر ہونے کی بات تو پھر بھی سمجھ میں آتی ہے مگر بےچارے لیاقت علی خان کو بھی اب اس میں شامل کر لیا گیا ہے کہ قرارداد مقاصد کو پاس کروانے کا اصل سہرا بطور وزیراعظم انھی کے سر ہے، منظوری کے وقت دستور ساز اسمبلی میں ان کی تقریر معرکۃ الآرا ہے۔ لیاقت علی خان کو مولوی تو ثابت نہیں کیا جا سکتا تو ایک دوسرا نکتہ سامنے لایا گیا ہے کہ وہ قائداعظم کے مخالف اور سازشی ذہن کے مالک تھے۔ جی ہاں لیاقت علی خان جو تحریک پاکستان میں قائداعظم کا دایاں ہاتھ تھے اور جنھیں لیگی قیادت میں نمبر دو کی حیثیت حاصل تھی، جنھیں خود قائداعظم نے پاکستان کا پہلا وزیراعظم بنایا، سیکولر لابی کے نزدیک وہ اس قدر سازشی ذہن کے حامل تھے کہ نہ صرف قائداعظم کی 11 اگست والی تقریر غائب کروا دی بلکہ سازش کے ذریعے ہی مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا ظفر احمد عثمانی سے کراچی و ڈھاکہ میں پاکستان کا جھنڈا لہروا دیا اور قائداعظم جیسے اصول پسند آدمی نہ چاہنے کے باوجود ٹھنڈے پیٹوں اس جسارت کو برداشت کر گئے۔ اگرچہ کراچی میں خود قائداعظم موجود تھے، ان کی موجودگی میں لیاقت علی خان کی سازش کا دعوی محل نظر ہے مگر سیکولرازم اور لبرلزم میں کچھ بھی ہو سکتا ہے ، یہ تو پھر بھی چھوٹی بات ہے۔

پاکستان کا پرچم لہرانا ہو، قائداعظم کی نمازجنازہ پڑھانا ہو یا قرارداد مقاصد کو پاس کروانا ہو، ایک مولوی کو حاصل ہونے والی ان سعادتوں پر وجاہت مسعود صاحب کی مخالفت تو سمجھ میں آتی ہے لیکن اس کے لیے تاریخ کو جیسے مسخ کیا گیا ہے، وہ وجاہت صاحب کی علمی شبیہ سے فروتر ہے اور اس سے اس تاثر کو دھچکا لگا ہے جو فی زمانہ سیکولر لابی کے فکری استاد اور صاحب مطالعہ ہونے اور تاریخ بالخصوص تحریک پاکستان پر گہری نظر رکھنے والے شخص کے طور پر بنا ہوا ہے۔ مولانا شبیر احمد عثمانی کو لیگ مخالف اور زبردستی اپنے خوابوں کے زور پر تحریک پاکستان پر قبضہ کرلینے اور مسلم لیگ کے مقابلے میں جمعیت علمائے اسلام کھڑی کرنے کے دعوے تاریخی طور پر بے اصل ہیں اور توقع نہیں تھی کہ وجاہت صاحب اپنی تحریر میں اس قدر عامیانہ رویے کا مظاہرہ فرمائیں گے۔

مثال کے طور پر ان کا یہ دعوی درست نہیں ہے کہ مولانا عثمانی 1944 میں لیگ میں شامل ہوئے تھے۔ مولانا اشرف علی تھانوی کے گروپ مولانا عثمانی جس کا حصہ تھے، نے پہلی دفعہ 1938 میں لیگ کے پٹنہ اجلاس میں شرکت کی تھی ۔ مولانا عثمانی اپنی والدہ کی علالت کی وجہ سے اس میں شریک نہیں ہو سکے تھے مگر وفد کو ان کی تائید حاصل تھی۔ اس اجلاس میں شرکت کرنے والے حضرات یہ تھے۔ مولانا شبیر علی تھانوی‘ مولانا عبدالجبار‘ مولانا عبدالغنی‘ مولانا معظم حسین اور مولانا ظفر احمد عثمانی۔ مولانا ظفر احمد عثمانی مولانا اشرف تھانوی کے بھانجے تھے جبکہ مولانا شبیر علی تھانوی مولانا اشرف تھانوی کے بھتیجے تھے۔ لیگ کے اس اجلاس میں مولانا تھانوی کا بیان بھی پڑھا گیا۔ معروف مئورخ ڈاکٹر صفدر محمود نے قائداعظم اور مولانا اشرف علی تھانوی کے عنوان سے نوائے وقت میں لکھے جانے والے کالموں میں اس کی روداد لکھی ہے جسے آن لائن دیکھا جا سکتا ہے۔ اس ملاقات میں موجود مولانا شبیر علی تھانوی نے اس ملاقات کی روداد لکھی جو تحریری شکل میں موجود ہے اور ڈاکٹر صفدر محمود صاحب نے اس کا حوالہ دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مولانا عثمانی سمیت علماء کے اس گروہ کی حمایت لیگ کو قرارداد پاکستان سے بھی پہلے سے حاصل تھی۔

پھر مولانا شبیر احمد عثمانی کے مجلس احرار سے مسلم لیگ سے آنے میں کی بات بھی درست نہیں ہے، کیونکہ وہ مجلس احرار کا حصہ نہیں رہے۔ وجاہت صاحب نے لکھا ہے کہ مولانا عثمانی ابتدائی طور پر مجلس احرار کے رکن تھے اور 1930کی دہائی میں ان کے دیوبند کے کانگرس نواز مولویوں سے اختلافات پیدا ہو گئے، 1944 میں انھوں نے لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ مجلس احرار کا قیام 29 دسمبر 1929 کو عمل میں آیا اور اس کے بنانے والوں میں مولانا ظفر علی خان ، مولانا دائود غزنوی، سید عطاء اللہ شاہ بخاری، چوہدری افضل حق، مولانا مظہر علی اظہر، خواجہ عبدالرحمن غازی اور مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی شامل تھے (بحوالہ سید عطاء اللہ شاہ بخاری از شورش کاشمیری)۔ جمعیت علمائے ہند کی تنظیم پہلے سے موجود تھی اور ملکی سیاست میں مئوثر کردار ادا کر رہی تھی۔ مولانا عثمانی کا اس زمانے میں ملکی سیاست میں ظہور نہیں ہوا تھا، وہ تدریس سے وابستہ تھے۔ 1936 میں وہ بطور صدر مدرس دارالعلوم دیوبند میں آئے اور ان کا نام سامنے آیا ۔ 1938 میں وہ لیگ سے متاثر ہو گئے تھے اور ان کے ہمخیال علماء نے لیگ کے پٹنہ اجلاس میں شرکت کی تھی جس کا اوپر حوالہ دیا گیا ہے۔ لگتا ہے وجاہت صاحب وکی پیڈیا سے دھوکہ کھا گئے جہاں مولانا کے تعارف میں حوالہ جاتی ٹیگ میں مجلس احرار کا نام بھی لکھا ہے۔ میں نے حال ہی میں شورش کاشمیری (معروف صحافی اور احراری لیڈر) کی دو کتب کا مطالعہ کیا ہے ‘ ابوالکلام آزاد ، سید عطاء االلہ شاہ بخاری’ ۔ بخاری صاحب علیہ الرحمہ مجلس احرار کے روح رواں تھے اور ان کی سوانح میں اس پر پورا باب ہے جبکہ آزاد اس کے مئوید بلکہ شورش کے بقول انھی کی تحریک پر مجلس احرار بنائی گئی۔ دونوں کتب میں مجلس احرار اور اس کے رہنمائوں کا جا بجا ذکر ہے مگر ان میں کہیں مولانا عثمانی کا نام نہیں ہے۔ وجاہت صاحب نے وکی پیڈیا کی مدد سے یقینا وہ بات معلوم کی ہے جو خود مجلس احرار کے رہنمائوں کو بھی معلوم نہ ہو سکی تھی۔ غصے اور حقارت کے جذبے سے انسان مغلوب ہو جائے تو ایسا ہوجاتا ہے۔

مسلم لیگ کے مقابلے میں جمعیت علمائے اسلام بنانے کی بات بھی زیب داستاں کے لیے ہے، ورنہ تاریخ کے ایک ادنی طالب علم کو بھی یہ بات معلوم ہے کہ اصلا یہ جمعیت علمائے ہند کے مقابلے میں تحریک پاکستان کی حمایت کے لیے بنائی گئی تھی ۔ اور اس کا بننا اس لیے ضروری تھا کہ دیوبندی مکتب فکر سے جمعیت علمائے ہند اور مجلس احرار جیسی تنظیمیں کانگریس کی ہمنوا تھیں اور مولانا عثمانی کے خیال میں پاکستان کی حمایت کرنے والے علما کے لیے ایک الگ پلیٹ فارم کا ہونا ضروری تھا۔ وجاہت صاحب کے خیال میں جمعیت علمائے اسلام لیگ کے مقابلے میں بنائی گئی تھی مگر حیران کن بات یہ ہے کہ مسلم لیگ کے خیال میں ایسا نہیں تھا بلکہ اسے تحریک پاکستان میں ممد و معاون سمجھا گیا تھا، اس لیے عثمانی برادران کے نام وہ اعزاز ہیں جن پر وجاہت صاحب سمیت سیکولر لابی کو اعتراض ہے۔ اسی سلسلے کی دلچسپ بات یہ ہے کہ وجاہت صاحب کے بقول مولانا عثمانی لیگ کے مقابلے میں تنظیم بنا رہے تھے مگر اس سے انھیں مسلم لیگ کے بجائے جمعیت علمائے ہند اور دیوبند کے اکابرین روک رہے تھے۔ اس حوالے سے اردو ڈائجسٹ نے رضی الدین سید کے قلم سے مولانا عثمانی اور مولانا حسین احمد مدنی اور دیگر اکابرین کے درمیان ہونے والا وہ تاریخی مکالمہ شائع کیا ہے اور اسے بھی آن لائن دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ مکالمہ دیوبند میں ہی مولانا عثمانی کی رہائش گاہ پر 7 دسمبر 1945 کو ہوا تھا ۔ اس کی اہمیت کا اندازہ ان ناموں سے لگایا جا سکتا ہے جو اس میں جمعیت علمائے ہند کی طرف سے شریک ہوئے اور مولانا کو الگ تنظیم بنانے سے روکنے پر آمادہ کرنے کی کوشش میں ناکام رہے۔ نام یہ ہیں ، مولانا حسین احمد مدنی (صدر جمعیت علمائے ہند)، مولانا مفتی کفایت اللہ (سابق صدر جمعیت علمائے ہند)، مولانا احمد سعید (سابق ناظم اعلیٰ جمعیت علمائے ہند)، مولانا حفظ الرحمن ( ناظم اعلیٰ جمعیتہ العلمائے ہند)، مولانا عبدالحلیم صدیقی، مولانا عبدالحنان، مولانا مفتی عتیق الرحمن عثمانی (مولانا عثمانی کے بھائی)، اس تاریخی مکالمے میں اصلا پاکستان کے حوالے سے ہی گفتگو ہوئی مگر یہ جید علمائے کرام بھی مولانا عثمانی کو اپنے مئوقف پر قائل نہ کر سکے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ مکالمہ خود دیوبند میں ہوا، برداشت جس کا لبرل دوستوں کو دعوی ہے مگر جن کے ہاں مفقود ہے۔

اسی تناظر میں یہ بات لغو محسوس ہوتی ہے کہ مولانا عثمانی کے پاس دلائل نہیں تھے اس لیے وہ خوابوں کا سہارا لیا کرتے تھے۔ خوابوں کی حقیقت کی بحث میں نہ بھی پڑیں تو بھی یہ بات بالکل واضح ہے کہ دلائل کے میدان میں ان کا دامن خالی نہیں تھا ، ورنہ دیوبند کے وہ بڑے نام تو انھیں ضرور قائل کر لیتے جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ کیا یہ بات مضحکہ خیز محسوس نہیں ہوتی کہ ایک شخص مولانا حسین احمد مدنی اور دیوبند کی پوری قیادت سے تو قائد اعظم اور پاکستان کے لیے دلیل کی بنیاد پر مکالمہ کر رہا ہے اور لیاقت علی خان کو دلائل سے بھرپور قرارداد مقاصد لکھوا رہا ہے مگر اپنے کسی مرید کے سامنے بیان کرنے کےلیے اس کے پاس خوابوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔

پاکستانی ریاست کی اسلامی شناخت آپ کو قبول نہیں ہے اور قرارداد مقاصد آپ کے نزدیک تمام مسائل کی جڑ ہے تو ضرور اپنی رائے پر قائم رہیے اور اس کو تبدیل کروانے کی جدوجہد اور کوشش کیجیے، شخصیات پر بھی جرح و نقد آپ کا حق ہے مگر اس کے لیے تضحیک آمیز رویہ اور تاریخ کو مسخ کرنا شاید ضروری نہیں ہے۔ بالخصوص ان کے قلم سے جو معاشرے میں باہمی احترام کی بنیاد پر مکالمے کے دعویدار ہیںکریہ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے