چترالیوں کا مذہب ، انسانیت

پہاڑی جنگجو،خودسر،سخت جان ،قابو میں نہ آنیوالے،آئین و قانون شکن،اپنے فیصلوں میں آزاد،کسی کی بالادستی تسلیم نہ کرنے والے،جدید اور مہذب دنیا سے دور رہنے کے سبب تہذیب و تمدن سے بھی بے خبر،تنگ نظراورمعمولی باتوں پر لڑائی جھگڑے کرنے والے اور کئی عشروں و صدیوں تک ایک دوسرے کے خون کے پیاسے رہنے والے لوگ ہیں ،یہ نہ خود کسی کے کام آتے ہیں اور نہ کسی کو کام کرنے کا موقع دیتے ہیں ، ہر وقت ایک دوسرے کے پیروں پر کلہاڑی مارنے کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں،دشمنیاں،نفرتیں اور کدورتیں ان کا خاصہ ہیں،ان سے دور رہنا ہی بہتر ہے،یہ وہ باتیں تھیں جو عرصہ تک برصغیر پر حکمرانی کرنے والی انگریز سامراج نے متحدہ ہندوستان کے شمال مغربی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے بارے میں کہی تھیں اورآج بھی مغرب کی اچھی خاصی آبادی ان باتوں پر یقین کرتی ہے تاہم سطح سمندر سے ہزاروں فٹ بلند،برف پوش پہاڑوں کے دامن میں گھرے ،سنگلاخ چٹانوں میں قید،تنگ وادیوں میں گزر بسر کرنے والوں اورکسی حد تک ناقابل رسائی علاقوں میں رہنے والے چترالی عوام نے اپنے کردار اورعمل سے اس مفروضے کوغلط ثابت کرتے ہوئے دنیا پر واضح کر دیا کہ پہاڑوں پر رہنے والے اور ظاہری طور پرجدید دنیا کی نظروں سے اوجھل عوام بھی تہذیب و تمدن،مہمان نوازی اورمحبت و بھائی چارے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔

آج کے چترال پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوگا کہ چترالیوں میں ہر وہ خوبی بدرجہ اتم موجودہے جس کی جدید دنیاصرف تصور کر سکتی ہے،زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں چترالی عوام نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا نہ منوایا ہو،اندرون و بیرون ملک مختلف اہم اور کلیدی عہدوں پر تعینات چترالی عوام خدمات انجام دے رہے ہیں جو بلاشبہ ان کی صلاحیتوں اورقابلیت کا منہ بولتا ثبوت ہے،چترالی عوام نے اس تاثر کو رد کر دیا ہے کہ وہ صرف پہاڑوں تک محدود ہیں بلکہ وہ موقع ملنے پر کسی بھی شعبہ زندگی میں اپنا نام روشن کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔

چترال میں کئی ایک زبانیں بولی جاتی ہیں جواپنی الگ پہچان رکھتی ہیں اس حوالے سے ناروے کے زبان دان جارج مارگن سٹیرن نے چترال کودنیا کاوہ واحد علاقہ قراردیا ہے جہاں سب سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں ان زبانوں میں کھوار،کالاشا من،پالولا،دمیری ،گواربھٹی، نورستانی،یدغا، بروشسکی، گجر، وخی، کرغز،فارسی اور پشتو شامل ہیں اور حیران کن امر یہ ہے کہ مختلف مذاہب اورتہذیبوں کے پیروکار صدیوں سے پیار ومحبت کے ساتھ رہ رہے ہیں،یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ امن و امان کے حوالے سے چترال دنیا کا مثالی علاقہ ہے جہاں جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔

دیر کے شمال،نورستان اور کنڑ کے مشرق،صوبہ بدخشاں کے جنوب اور گلگت بلتستان کے مغرب میں واقع منفرد محل وقوع کا حامل ضلع چترال 3لاکھ نفوس پر مشتمل علاقہ ہے،ضلع میں24یونین کونسلیں اور6سب تحصیلیں ہیں،آب و ہوا کے لحاظ سے چترال میں گرمیوں میں بارش سرے سے نہیں ہوتی جبکہ درجہ حرارت44ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے تاہم سردیوں میں یہاں ریکارڈ سردی ہوتی ہے اور درجہ حرارت منفی 10سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے،2فٹ تک برف معمول جبکہ اکثر20میٹر یا 70فٹ تک بھی برف ریکارڈ کی گئی ہے۔

چترال مقامی زبان کالفظ ہے جس کے معنی میدان کے ہیں،چترال کو مقامی بولی میں چترار بھی کہاجاتاہے1969ء تک یہ آزاد ریاست تھی تاہم بعد ازاںیہ ریاست سوات اوردیرکی طرح پاکستان میں ضم کر دی گئی۔

14833مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلے چترال کے علاقے کیلئے قومی اسمبلی میں ایک جبکہ صوبائی اسمبلی میں دو نشستیں ہیں، چترال کے عوام اپنے محسنوں کو کبھی نہیں بھولتے یا یوں کہیئے کہ چترال کے عوام احسان فراموش نہیں،گزشتہ دور میں سابق آرمی چیف و صدرپرویز مشرف نے چترال کے عوام کا دیرینہ مسئلہ لواری ٹنل حل کرنے کیلئے انقلابی اقدامات اٹھائے اور کئی عشروں سے تعطل کا شکار اس منصوبے کیلئے اربوں روپے کے فنڈز جاری کئے،لواری ٹنل وہ واحد راستہ ہے جس کی تکمیل سے چترال کے عوام کا ملک کے دیگر حصوں کے ساتھ سال کے بارہ مہینے رابطہ بحال رہ سکے گا، ورنہ توموسم سرما میں لواری پاس بند ہونے کی وجہ سے چترال کے عوام کو پڑوسی ملک افغانستان کے راستے اپنے علاقے جانا پڑتا ہے،لواری ٹنل منصوبے کی تکمیل میں اہم پیشرفت کرنے پرچترال کے عوام سابق صدر پرویز مشرف کے احسان مندرہے اورگیارہ مئی کے عام انتخابات میں پرویز مشرف کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کو جہاں ملک بھر میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ پارٹی سربراہ کو بھی نا اہل قرار دیا گیا،چترال وہ واحد علاقہ تھا جہاں اے پی ایم ایل کا امیدوار قومی اسمبلی شہزادہ افتخارالدین اور صوبائی اسمبلی کی نشست پر اسی جماعت کا ٹکٹ ہولڈرغلام محمد کامیاب ہوا جبکہ گزشتہ دور حکومت میں صوبائی وزیر بہبود آبادی سلیم خان کو علاقے کیلئے گرانقدر خدمات انجام دینے پر گیارہ مئی 2013ء کے عام انتخابات میں چترالی عوام نے بھاری اکثریت سے کامیابی دلا کر ثابت کر دیا کہ چترالی احسان فراموش نہیں اور احسان کا بدلہ احسان سے دیتے ہیں۔

چترال کے عوام کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے ماضی اور روایات سے جڑے ہوئے ہیں،چترال ٹاؤن اور چند اہم بازاروں کے علاوہ پوری آبادی دیہات پر مشتمل ہے اور1200کے قریب دیہات بونی،دروش اوردیگرقبائل پر مشتمل ہے،چترال کی اہم وادیوں میں کیلاش،شندور،ایون اور سینشالی شامل ہیں،کیلاش کی ایک خاتون ماہر ارضیات سعید گل کیلاشی کے مطابق’’اگر کسی کو اخلاق اور انسانیت سیکھنا ہے تو چترال آجائے آج تک وہاں کسی نے دوسرے کا مذہب و عقیدہ نہیں چھیڑا، ہم چترالی کسی کا مذہب نہیں اس کی انسانیت دیکھتے ہیں، انسانیت سب سے بڑا مذہب ہے،میراچچا پکا مسلمان ہے اور پانچ وقت کا نمازی ہے جبکہ ہم غیرمسلم ہیں اس کے باوجود ہم ایک ہی گھر میں بخوشی رہ رہے ہیں مکمل مذہبی آزادی کے ساتھ،انہوں نے یہ بھی کہا کہ کیلاشی وہ واحد کمیونٹی ہے جو موت پر بھی جشن مناتی ہے،چترال دائرہ اسلام میں داخل ہونے سے قبل ایک ہندو ریاست تھی اور یہاں بدھ مت کے آثاربھی ملتے ہیں،چترالیوں میں ایک اہم خوبی ان کا جذبہ ایثار ہے دوسروں کے کام آنا چترالی عوام اپنا سرمایہ افتخار سمجھتے ہیں،ہزارہ یونیورسٹی میں شعبہ آثار قدیمہ کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹرعبدالصمد کے مطابق چترال تاریخی ورثے سے مالا مال علاقہ ہے ، یہاں مختلف مقامات پر عظیم تاریخی ورثے کے آثار ملے ہیں اورمختلف مقامات پرمزیدبھی دریافت کئے جا رہے ہیں ان کے مطابق چترال کے عوام اپنی مٹی سے پیار کرنے والے اورمہمان نواز و جفاکش لوگ ہیں اورانہی خوبیوں کی بدولت آج کی جدید دنیا میں بھی اپنا منفرد مقام رکھتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے