پاناما لیکس دبانے کے ہتھکنڈے

پاناما لیکس منظر عام پر آنے کے بعد سے پوری دنیا کے ایوان ہائے سیاست میں بھونچال کی کیفیت ہے، اب تک لیک ہونے والی دستاویزات میں جن ملکوں کے حکمرانوں اور سیاست دانوں کے نام سامنے آئے ہیں، ان ملکوں میں زبردست سیاسی بحران اٹھ کھڑا ہوا ہے۔

پاکستان اور بھارت سمیت تیسری دنیا کے چند ملکوں کے سوا مغربی دنیا کے جن جن ملکوں سے تعلق رکھنے والے "چھپے رستم” اور راہبروں کے روپ میں راہزنوں کے سردار منظر عام پر آئے ہیں، وہاں کے عوام اس معاملے کو سیدھے سادے انداز میں ٹیکس چوری اور دولت چھپانے کے جرم کا مقدمہ بنا کر میدان عمل میں ہیں۔ ان لیکس کا سب سے فوری ردعمل شمال مغربی یورپ کے جزیروی ملک آئس لینڈ میں سامنے آیا، وہاں کے عوام نے اپنے وزیر اعظم کا نام ٹیکس چوروں کی فہرست میں دیکھا تو کسی تحقیق و تفتیش کا انتظار کیے بغیر سڑکوں پر آگئے اور وزیر اعظم کو استعفاءدے کر گھر جانے پر مجبور کردیا۔ آئس لینڈ کے عوام کا غصہ اس پر بھی ٹھنڈا نہیں ہوا، وہ اب اس مطالبے کے لیے دھرنا دیے بیٹھے ہیں کہ مستعفی وزیر اعظم سمیت اس فہرست میں شامل تمام افراد کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا جائے۔

آئس لینڈ کے بعد پاناما بھونچال نے بر اعظم جنوبی امریکا کے ملک ارجنٹائن کے صدر کی حیثیتِ عرفی کا جاہ و جلال بھی خاک میں ملا دیا ہے۔ عوام کے شدید ردعمل کے نتیجے میں صدر مارسیو میکری کا مواخذہ شروع ہوچکا ہے۔ جلد دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ مسلم دنیا میں ملیشیا واحد ملک ہے، جہاں کے عوام نے اپنے سیاسی شعور اور بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے وزیر اعظم نجیب رزاق کا گھیرا تنگ کردیا ہے۔

کل پی ٹی آئی کے سربراہ جناب عمران خان جب اپنی قیام گاہ کے دالان میں ایک پر ہجوم پریس کانفرنس کے ذریعے قوم سے خطاب میں پاکستان کے جمہوری کم شاہی خاندان کی غیر اخلاقی "آف شوریوں” کا پردہ ٹھوس ثبوتوں کے تیز دھار آلے سے چاک کر رہے تھے اور مہذب دنیا کے ”آف شوری” الزامات کا سامنا کرنے والے حکمرانوں کے رویے کا آئینہ وزیر اعظم نواز شریف کو دکھا کر ان سے استعفاء دینے کا مطالبہ کر رہے تھے، عین اسی دوران یوکرین کے وزیراعظم کے استعفے کا اعلان الیکٹرونک میڈیا کے توسط سے پاکستان کی فضاؤں کا سکوت مرگ توڑ رہا تھا۔

لیکس بھونچال نے اقتدار کی غلام گردشوں میں ہی سنسنی نہیں پھیلائی ہے، کئی عالمی اداروں کے در و دیوار سے بھی نا آسودہ حسرتوں کی آخری ہچکیاں سنائی دینے لگی ہیں۔ شنید ہے کہ ڈچ بینک کے ایڈوائزری بورڈ کے سینئر رکن اور چلی میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مقامی صدر نے لیکس میں نام افشا ہونے کے بعد غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے عہدے چھوڑ دیے ہیں۔

مغربی دنیا کے اہم ستون اور جدید جمہوری تہذیب کو اپنی آغوشِ مادر میں پروان چڑھانے والے برطانیہ میں عوامی شعور اور حکمرانوں کے احتساب کا کھرا معیار سب سے نرالے انداز میں ظاہر ہوا ہے۔ کرپٹ حکمرانوں اور سیاستدانوں کے سنگین ترین قومی جرائم کو خدا کے حوالے کرکے ستو اور لسی پی کر خوابِ غفلت میں بے حسی کے فلک شگاف خراٹے مارنے والی ہماری قوم کے لئے یہ بات نہایت حیران کن ہوگی کہ "برطانیۂ عظمیٰ” کے وزیر اعظم محض اپنے والد کی آف شور کمپنیوں کے باعث عوامی غیظ و غضب کا سامنا کر رہے ہیں۔ والد کی ٹیکس چوری کی وجہ سے برطانوی عوام کو وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی دیانت و امانت پر بھی اعتماد نہیں رہا، ان کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نے اپنے اس پس منظر کو چھپا کر خیانت کا ارتکاب کیا ہے، اگر ان کے اس پس منظر کا علم ہوتا تو برطانوی عوام انہیں پہلے ہی منتخب نہ کرتے۔ حالانکہ ان کے والدِ بزرگوار پر ٹیکس چوری کے ارتکاب کے الزامات ہونہار سپوت کے اقتدار میں آنے سے پہلے کے ہیں۔ اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ڈیوڈ کیمرون صاحب سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے۔

دوسری طرف وطن عزیز کی سیاست کا حالِ زار و نزار ہے۔ وزیر اعظم اور ان کے ہونہار سپوتوں کی اس بے تحاشا دولت کا انکشاف ہوا، جو آف شور کمپنیوں میں کروڑوں روپے کے ٹیکس بچانے کی خاطر لگائی گئی، مگر ایک خان کے سوا کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ الٹا کرپٹ حکمران خاندان کے وظیفہ خور اور زلہ ربا صحافی، حلیف اور کفش بردار سامری کی طرح دور از کار تاویلات کی ساحری سے قوم کو بے حسی کی نیند سلا کر قوم کے مجرموں کو محفوظ راستہ دینے کے لئے میدان میں آگئے ہیں۔

شریف خاندان کے دسترخوان کی ریزہ چینی کرنے والے خائن صحافیوں اور سیاہی فروش قلم کاروں نے کرپٹ حکمرانوں کے خلاف منظم ہونے والی قومی جنگ کی اہمیت گھٹانے کے لئے اسے ن لیگ بہ مقابلہ پی ٹی آئی روایتی سیاسی کش مہ کش بنانے کے لئے اپنے "فن” کا زور آزمانا شروع کر دیا ہے۔

قوم کے مفادات کے تحفظ پر مامور وزیروں نے اپنے کرپٹ آقائے ولی نعمت کے ذاتی مفادات کی حفاظت کے لئے بلیک میلروں کا روپ دھار کر شوکت خانم اسپتال کے چندوں کے مبینہ ناجائز استعمال کے بے جان افسانے سنا کر قوم کی توجہ بٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان سے جب بھی وزیر اعظم کی ٹیکس چوری اور "آف شوریوں” کے متعلق سوالِ گندم پوچھا جاتا ہے، وہ عمران خان پہ بات گھما کر چنا چنا کرنے لگتے ہیں۔

رہ گئے کچھ "نیمی درون، نیمی برون” قسم کے دیر و حرم دونوں کی آبرو رکھنے میں ماھر حکومتی حلیف تو ان کی مشہور زمانہ "بصیرت” کو ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ”عالمی سازش” کی روایتی ہری ہری ہی سوجھی ہے۔

خداوندا تیرے سادہ بندے کدھر جائیں
کہ سلطانی بھی عیاری ہے، درویشی بھی عیاری

آئس لینڈ، یوکرین ، ہالینڈ، برطانیہ، چلی، ارجنٹائن اور ملیشیا کے لوگ یا تو بے وقوف ہیں یا خوش قسمت۔ بے وقوف ان معنوں میں کہ اپنے ملک کے سیاسی استحکام کے خلاف پاناما کے جنگلوں میں رچی گئی اس خطرناک سازش کو نہ بھانپ سکے اور اپنے دانشوروں اور وزیران با تدبیر کے ہمدردانہ مشوروں کو پرِکاہ جتنی حیثیت دیے بغیر اپنے ”اولو الامر” کے خلاف میدان لگالیا۔ خوش قسمت یوں کہ خدا نے انہیں ہمارے یہاں کی طرح کے کرتب باز جغادریوں سے بچا رکھا ہے!
ہونھہ۔ ۔ ۔ کتنے بے وقوف ہیں وہ!!!
ہائے۔ ۔ ۔ ۔ کس قدر خوش نصیب ہیں وہ!!!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے