‘ڈی چوک، ایف-9 پارک میں سیاسی اجتماع نہیں ہوگا’

اسلام آباد: وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ اسلام آباد کے ڈی چوک یا ایف نائن پارک میں سیاسی اجتماع کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ آزادی اظہار کا نہیں، اسلام آباد کے حساس علاقوں کی سیکیورٹی کا مسئلہ ہے۔

‘ ہر 3 روز بعد اسلام آباد سیل ہونے کا پیغام دیا جاتا ہے، اس سے دنیا میں پاکستان کے حوالے سے غلط پیغام جاتا ہے۔’

چوہدری نثار نے کہا کہ اسلام آباد کو پر امن شہر بنانا میری ذمہ داری ہے، شہریوں کے حقوق اور اس کی عزت ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

‘جلسے جلوسوں اور سیاسی طاقت دکھانے کے لیے پورا پاکستان پڑا ہے۔ کیا مجبوری ہے کہ جلسہ صرف اسلام آباد میں ہی کرنا ہے؟’

چوہدری نثار نے کہا کہ حکومتی رٹ ہر صورت قائم ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کو اگر 24اپریل کا جلسہ کرنا ہے تو اس کی بھی کچھ شرائط ہوں گی اور وہ اس حوالے سے بات چیت کے لیے تیار ہیں۔

انہوں نے خبردار کیا کہ اگر جلسے کا مقامہ تبدیل کیا گیا تو قانون نافذ کرنے والے ادارے کارروائی کریں گے۔

ممتاز قادری کی پھانسی پر اسلام آباد کےحال ہی میں ہونے والے مذہبی جماعتوں کے دھرنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس میں ‘گندی زبان’ کا استعمال کیا گیا۔

‘کیا گندی گالی دینے والا عالم دین ہو سکتا ہے؟’

پاناما لیکس کے معاملے پر بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آف شور کمپنیوں کا معاملہ حل کرنا ہے تو میڈیا ٹرائل بند کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کو سرے محل سے بات شروع کرنی چاہیے تھی، وزیراعظم نے فیئرفلیٹس سے کبھی انکار نہیں کیا، ہماری میٹنگ ہوتی رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آف شور کمپنی کے معاملے کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ اپوزیشن کی جانب سے ایف آئی اے سے تفتیش کرنے کا مطالبہ آیا۔

‘عمران خان نے میرا نام لے کر کہاکہ وزیرداخلہ کی ذمہ داری ہے ایف آئی اے سے تفتیش کرائے، فیصلہ عمران خان پر چھوڑتا ہوں کہ ایف آئی اے کے افسر کو منتخب کرلیں’

انہوں نے کہا کہ شعیب سڈل ایف آئی اے کے افسر نہیں ہیں۔

اس سے قبل پاناما لیکس کے ذریعے وزیراعظم نواز شریف کے اہلخانہ کی آف شور کمپنیوں سے متعلق معلومات سامنے آنے کے حوالے سے وفاقی وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ حکومت وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) سے اس معاملے کی تحقیقات کروانے کے لیے تیار ہے۔

عمران خان نے قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران پاناما لیکس کے دعوؤں کی تحقیقات موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں عدالتی کمیشن کے ذریعے کروانے کا مطالبہ کیا تھا۔

عمران خان نے ہفتے کو شعیب سڈل کو آزاد تحقیقاتی کمیشن کا سربراہ مقرر کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

[pullquote]پاناما لیکس
[/pullquote]

واضح رہے کہ کچھ روز قبل انٹرنیشنل کنسورشیم آف انوسٹیگیٹیو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) نے بیرون ملک ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور قانونی مدد فراہم کرنے والے ادار موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات میں پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور سیاسی شخصیات کے ‘آف شور’ مالی معاملات عیاں ہوئے تھے۔

پاناما لیکس میں بتایا گیا کہ کس طرح دنیا بھر کے امیر اور طاقت ور لوگ اپنی دولت چھپانے اور ٹیکس سے بچنے کے لیے بیرون ملک اثاثے بناتے ہیں۔

ویب سائٹ پر موجود معلومات کے مطابق پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں مریم، حسن اور حسین کئی کمپنیوں کے مالکان ہیں یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز تھے‘۔

وزیر اعظم کے بچوں کے علاوہ دیگر کئی سیاست دانوں اور کاروباری شخصیات کا نام بھی ان معلومات میں سامنے آیا ہے۔

یہ معلومات سامنے آنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے قومی احتساب بیورو (نیب) کے ذریعے تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

بعد ازاں وزیراعظم نواز شریف نے پاناما لیکس کے معاملے پر قوم سے سرکاری ٹی وی پر خطاب میں سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطح کا جوڈیشل کمیشن قائم کرنے کا اعلان کیا۔

اس اعلان کے بعد قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے پاناما لیکس پر وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے قائم کردہ جوڈیشل کمیشن مسترد کرتے ہوئے بین الاقوامی ماہرین سے آڈٹ کروانے کا مطالبہ کردیا۔

گزشتہ روز عمران خان نے انکشافات کے بعد وزیراعظم نواز شریف سے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے قوم سے حقائق چھپائے اور عوام کو گمراہ کیا۔

اپنے خطاب میں انہوں نے مطالبات منظور نہ ہونے کی صورت میں رائیونڈ میں دھرنے کی دھمکی بھی دی تھی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے