آخر یہ طاہر شاہ چاہتا کیا ہے ؟

یہ ہفتے کا ایک عمومی سا دن تھا ، وہی عام سی باتیں روایتی سے لمحے ،، یکایک شام ڈھلی تو فیس بک پر طاہر شاہ کے گانے پر نظر پڑی ، جب تک اینجل چلتا ،، تب تک آئی ٹو آئی کے اچھوتے بول ضروری آنکھیں ، جذباتی آنکھیں ، ہماری آنکھیں ، تمھاری آنکھیں(حسب توفیق انگریزی میں ترجمہ فرمائیں) چل رہا تھا ۔۔۔ پھر چلا ۔۔۔ اینجل ۔۔۔ مین کائنڈ اینجل ۔۔۔۔ مائی ہارٹ از لائک آ روز ۔۔ مین کائنڈ روز

شام سے رات ہوئی ۔۔۔ ہنسی کے فوارے پھوٹے پڑ رہے تھے۔ گانا ایک بار سن کر یقین نہ آیا ، پھر چلایا ۔۔۔ پھر سمجھ نہ آیا ،، پھر چلایا ۔۔۔ من کو بھایا ۔۔ ایک بار پھر چلایا۔۔ بار بار دہرایا۔

ٹوئیٹر ، فیس بک ، یوٹیوب پر طاہر شاہ چھا گیا۔ بی بی سی، انڈیا ٹوڈے ایک کے بعد ایک سب کے دھڑا دھڑ بلاگ ، آرٹیکلز آنے لگے ۔۔ دماغ ششدر تھا ، بلکہ ہم انگشت بدنداں تھے کہ یا اللہ تیری قدرت۔۔

ایک ہی سوال تھا آخر یہ طاہر شاہ چاہتا کیا ہے ؟ مجھے تو جواب مل گیا شاید میرے جواب میں آپ کا جواب بھی چھپا ہو
طاہر شاہ کی انگریزی اگر یہ واقعی اس کی اپنی تحریر ہے تو کمال ہے ، ایک ایک لفظ میں بلا کا اعتماد چھپا ہے، کسی کو طاہر شاہ کی انگریزی سمجھ آئے نہ آئے مگر جہلم سے تعلق رکھنے والے اس سپوت نے سانحہ جلیانوالہ باغ کا بدلہ ڈیڑھ سو سال بعد انگریزوں سے نہیں انگریزی سے لے لیا ہے۔

یوں تو سب ہی چہرے اچھے ہوتے ہیں مگر نہایت بے باکی سے کہتی ہوں کوئی چہرہ ہوتا ہے لائق دیدار اور کسی چہرے پر برستی ہے پھٹکار ۔۔مگر طاہر شاہ کو اس حقیقت سے نہیں کوئی سروکار ، وہ خود کو بہت اچھا لگتا ہے اور اس کے لیے یہی کافی ہے۔ آنکھوں میں ہرے لینس ، چہرے پر گورے پن کا پاوڈر اور ہونٹوں پر گلابی لپ اسٹک لگائے وہ خود کو کوئی باگڑ بلا نہیں ، اینجل سمجھتا ہے ۔۔ اب بھی یقین نہ آئے تو خود کو ایک چٹکی ذرا زور سے بھریں اور یقین کرلیں کہ طاہر شاہ ایک فلم بنا رہا ہے(دل کے مریض احتیاط کریں) فلم میں وہ خود اپنی دراز زلفوں کے ساتھ ہیرو کے طور پر آرہا ہے ،ڈر ہے شائقین دوران فلم ڈھونڈتے رہ جائیں گے کہ ہیرو کون ہے اور ہیروئن کون ۔

طاہر شاہ کی ویب سائٹ وزٹ کریں ، اس میں خود نمائی ہے مگر غرور نہیں اور غرور ہو بھی تو کس بات پر ؟ اس کے ٹیلی ویژن انٹرویو دیکھیں ، ان میں سادگی ہے عیاری نہیں ۔ طاہر شاہ اپنے آپ کے ایک چوکور ڈبے میں بند ہے جسے اپنے آپ کے سوا کسی کی پرواہ بھی نہیں ، اس نے کبھی یہ سوچا ہی نہیں کہ لوگ کیا سوچیں گے ( ویسے اچھا ہی کیا ) طاہر شاہ کہتا ہے کہ اس نے پہلا گانا آئی ٹو آئی لکھنے میں تیس سال لگا دیئے ،دو ہزار تیرہ میں اس کا ماننا تھا کہ یہ آنکھیں ہی ہیں جو محبت کا دروازہ ہیں ، اب تین سال بعد موصوف کا تازہ بہ تازہ کلام اینجل بھی ایک گہرا فلسفہ لیے ہے ، اس بار شاہ ساب کا ماننا ہے کہ ہم سب انسان اندر سے اینجل (فرشتہ) ہیں ، ہمارے بچے ہمارے اینجل ہیں اور پتا نہیں کیا الا بلا سب کے سب لائک این اینجل ہیں ، وہ جیسا بھی ہے محبت کرتا ہے ، محبت چاہتا ہے اور خود اعتمادی بلکہ ضرورت سے کچھ بہت ہی زیادہ خود اعتمادی کا چلتا پھرتا شاہکار ہے۔

محض دو گانے گا کر ڈیڑھ لاکھ فیس بک فالورز ، چھیالیس ہزار ٹوئٹر فالورز یونہی نہیں بن گئے ، بڑا جگرا چاہیے جناب ، یا تو یہ شخص کوئی بہت شدید شاطر ہے جو ہم سب کو ۔۔۔۔۔۔۔ بنا رہا ہے ، یا پھر اتنا سادہ کہ بس !

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے