زمانہ تبدیل ہوا تاریخ نہیں

رومن قوم کے زوال کے بارے میں یورپین تاریخ دانوں نے بہت کچھ لکھا ہے ۔ بڑے بڑے ابواب محض اس تاریخی زوال کے اسباب پر رقم کئے گئے ہیں لیکن رومن حکمرانوں اور اشرافیہ کی جانب سے ان اسباب کی وجوہات کے مصنوعی ازالے کا بھی ذکر ہمیں تاریخ میں ملتا ہے ۔

یہ اسباب کیا تھے ؟ حد سے زیادہ کرپشن کا بڑھ جانا، غلاموں کی کثرت اور سستی لیبر کی وجہ سے رومن مڈل کلاس میں بے روزگاری کا حد سے تجاوز کرنا ، رومی سلطنت کی وسعت کے لحاظ سے بھاری فوجی اخراجات نے لوگوں پر سخت ترین ٹیکسوں کی بھرمار کررکھی تھی ، رومی حکمرانوں اور اشرافیہ میں اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا تھا ، رومن سینٹرز اور سیزروں کے درمیان بڑھتا ہوا سیاسی اختلاف اور سیاسی حمایت حاصل کرنے کے لئے بھاری رشوت کا استعمال عام ہوچکا تھا ، مشرقی یورپ سے اٹیلا دی ہن اور جنوب کی جانب سے جرمینین قبائل کی شورشوں نے رومی فوج کو متواترجنگ کی حالت میں رکھنے کی وجہ سے بددل کردیا تھا۔

لیکن ان وجوہات کا اگر براہ راست اثر پڑ رہا تھا تو وہ رومی عوام تھے جن پر نئے نئے ٹیکس لگا کر ان کا خون بری طرح نچوڑا جاتا تھا اور جب کبھی ردعمل کی فضا محسوس کی جاتی تو رومی حکمران اور اشرافیہ ’’گیمز‘‘ کا اعلان کرا دیتی اور یوں مہینوں تک رومی عوام ان گیمز میں گم ہوکر اپنے تمام مصائب بھول جاتے ۔ نہ انہیں اس بات کا ہوش رہتا کہ حکمران ظالمانہ ٹیکسوں کے ذریعے ان کی کھال اتار رہے ہیں ۔ نہ انہیں اس بات کا خیال آتا کہ سرحدوں پر بڑھتے ہوئے خطرات سے حکمران نمٹنے سے عاری ہوچکے ہیں اور اپنی عیاشیوں میں غرق ہیں۔انہیں یہ بھی یاد نہیں آتا تھا کہ اس ناگفتہ بہ حالت میں وہ روٹی کہاں سے کھائیں گے جو پہلے ہی عنقاء ہوچکی ہے ۔ ہاں انہیں اگر کوئی چیز مرغوب تھی تو وہ رومی تھیٹروں کے وسط میں بنی وہ رزم گاہیں تھیں جہاں پر دنیا کے مانے تانے تیغ زن (Gladiator) اپنے خونریز فن کا مظاہرہ کرتے یا دنیا بھر سے مختلف قوموں کے قیدی بنا کر لائے ہوئے انسانوں کو زندہ درندوں کے سامنے ڈالا جاتااورپھر مفتوحہ علاقے کی حسین ترین عورتیں ان اخلاق باختہ تھیٹروں کی زینت بنا دی جاتیں۔

بات صرف یہیں تک محدود نہیں تھی بلکہ ان تیغ زنوں (Gladiators) کو خریدنے کے لئے بھاری رقوم ادا کی جاتیں یقینی بات ہے یہ بھی عوامی ٹیکس سے ہی ادا ہوتی تھیں پھرکہیں جاکہ ان خونی مناظر کا اہتمام کیا جاتا جبکہ ان پر لگنے والی شرطوں پر عوام کی اکثریت اپنی رہی سہی پونجی بھی لٹا دیتے۔لیکن اس سب کے باوجود رومن عوام اپنی اس بے راہ روی کو زندہ دلی کا نام دیتے تھے اور اسے اعلیٰ وصف قرار دے کر اپنے آپ کو دیگر اقوام سے ممتاز شمار کرتے تھے ۔

یہ ان لوگوں کا حال تھا جو 27 قبل مسیح میں ایک قوم بن کر ابھری تھی مگر 476 عیسوی تک عوام میں بدل کر تاریخ کے اوراق میں گم ہوچکی تھی۔ جدید تاریخ کے عرب دانشوروں نے عوام اور قوم میں ایک جوہری فرق بیان کیا ہے ۔ ان کے خیال میں قوم ان افراد کا مجموعہ ہوتی ہے جو ایک دوسرے کی خوشی اور غمی سے پوری طرح آگاہ ہو اور جب اسی قوم میں آپس کا فکری اور شخصی بُعد پیدا ہوجائے تو یہ عوام بن جاتے ہیں ، ایک ایسا بے سمت ہجوم جو اپنے ہمسروں تک سے غافل ہو۔

آج جب ہم پاکستانی قوم کی ’’زندہ دلی‘‘ کا مشاہدہ کرتے ہیں تو اندازہ لگانا مشکل ہوجاتا ہے کہ ہم ابھی تک قوم ہیں یا عوام بن چکے؟ آج جب پاکستانی رومیوں کی طرح کرکٹ کے کھیل پر والہانہ فدا ہوتے ہیں تو سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے کہ یہ وہی قوم ہے جس پر مصائب کا پہاڑ ٹوٹا ہوا ہے ، کیا یہ وہی قوم ہے جس کی غیرت کا جنازہ حکمرانوں نے نکال دیا ہے ؟ کیا یہ وہی قوم ہے جس کے افراد ڈررون حملوں میں گاجر مولی کی طرح کاٹے جاتے رہے ؟ کیا یہ وہی قوم ہے جس پر ٹیکسوں اور مہنگائی کی شکل میں عذاب الہی ٹوٹ چکا ہے ؟ کیا یہ وہی قوم ہے جس کے لئے بجلی ، گیس اور پیٹرول کی ادائیگی اور اشیاء خودنوشت کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہوچکا ہے؟ مقبوضہ کشمیر میں جو اس قوم کی شہہ رگ ہے ، آئے روز ظلم وستم کی نئی داستان رقم کی جاتی ہے مگر ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔

حضرت قائد اعظمؒ نے ہمیں ایک قوم کی طرح ایک مقصد پر جمع کیا تھا ۔ نباض امت اقبال ؒ نے اس قوم کی فکری آبیاری کی تھی۔ مولانا محمود الحسنؒ اسیر مالٹا، مولانا عبیداللہ سندھیؒ، مولانا محمد علی ؒجوہر اور مولانا شوکت علی ؒجیسے رہنما ئے امت نے اس قوم کو عملی جدوجہد کا سبق سکھایا تھا۔ لیکن ہم یہ سب کچھ بھول گئے ۔ علماء اور دینی جماعتوں نے اسلام کے بجائے اسلام آباد کی راہ لی۔ سیاستدانوں نے روٹی کپڑا اور مکان کا سراب دکھایااور یہ قوم اس قسم کے مشرکانہ نعروں کو اپنا ہدف سمجھ کر ان کے پیچھے لگ گئی۔ رازق تو اللہ کی ذات ہے اور یہ وصف صرف اسے ہی سزا وار ہے، ہاں اس کے لئے جدوجہد انسانوں کے لئے شرط ہے۔ لیکن اگر ہم اپنے جیسے انسانوں کو ہی ان مسائل کا حل سمجھ لیں تو عذاب خداوندی کا سروں پر مسلط ہونا حیران کن نہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ہم قوم سے عوام بن گئے ایک دوسرے سے غافل، ہمارا سب سے بڑا ایشو پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ کا میچ ہے ، ہمارے حکمرانوں کو بھی رومی حکمرانوں کی طرح عوام کو بے وقوف بنانا آتا ہے کیونکہ زمانے بدلنے سے تقاضے بدلتے ہیں روش یا تاریخ نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے