صحافت کے لبادے میں چُھپے مالشیے

سکینڈلز اور ایکسپوزڈ جیسے الفاظ کے پیچھے بھاگتا ایسا معاشرہ جو دلیل یا منطق کے بنا صرف سنسنی دیکھنا اور سنسنا چاہتا ہے اس معاشرے کو بھلا سچ سننے یا جاننے میں کوئی دلچسپی کیسے ہو سکتی ہے.

ایسے معاشرے میں تو بس سنسنی چاھیے ہوتی ہے بھلے ہی اس کا نتیجہ معاشرے یاـملک کیلئے کتنا ہی برا کیوں نہ ثابت ہو. جناب عمران خان نے قوم سے خطاب کی اپنی شکست خوردہ خواہش کو بالآخر کسی حد تک پانامہ لیکس کے معاملے پر نجی ٹی وی چینلز کے ذریعے پوری کر ہی لی.

اور ساتھ ہی حکومت کے خلاف ایک اور ممکنہ تحریک چلانے کی دھمکی بھی دے ڈالی.عمران خان کا سیاسی فائدہ یقینا مڈ ٹرم انتخابات کی صورت میں زیادہ ہے اس لیئے وہ اپنا آخری داو بھرپور طریقے سے کھیلنا چاہتے ہیں.

سیاسی اکھاڑے کا یہ دنگل کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن چوبیس گھنٹے ایمانداری کے بھاشن دیتے اور اثاثے چھپانے پر ملک کے وزیر اعظم سے استعفی مانگنے والے ٹی وی اینکرز صحافی اور میڈیا مالکان اس سارے کھیل میں اکھاڑے میں پہلوانوں کی مالش پر معمور مالشیوں کا کام خوب تند دہی سے انجام دے رہے ہیں.

ان مالشیوں نے پچھلے دھرنے پر بھی عمران خان صاحب کو یہ یقین دلوانے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی تھی کہ بس حکومت آج ہی جانے والی ہے اور خان صاحب ان کی باتوں پر یقین کامل رکھتے ہوئے ایک عدد شیروانی بھی سلوا بیٹھے تھے.

اب اس پانامہ لیک کے مسئلے پر بھی ان مالشیوں نے ملک میں میڈیا کی حد تک ایک انقلاب برپا کیا ہوا ہے. یہ مالشیے بھی خوب کایاں ہیں اپنے اپنے سیٹھوں کے کالے دھندوں ٹیکس چوری حتی کہ پانامہ لیکس میں خود اپنے مالکان کے نام آنے پر ایک منٹ بھی بات نہیں کرتے لیکن سچائی کا علم بلند کرنے کا دعوی ہمہ وقت کرتے نظر آتے ہیں. ٹی وی اینکرز لکھاریوں اور میڈیا مالکان پر مشتمل یہ مالشیے ملک میں صحافت کے گرتے ہوئے معیار کا بہت بڑا سبب ہونے کے علاوہ ملک اور معاشرے میں سیاسی و معاشرتی جمود کا باعث بھی ہیں.

ان مالشیوں نے مالش کیلئے مختلف پہلوانوں کا انتخاب کیا ہوا ہے اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ سیاسی اکھاڑے میں ہمہ وقت دنگل جاری رہے تا کہ ان کا مالش کا دھندہ خوب چمکتا رہے.

احتساب لوٹ مار کرپشن پر چوبیس گھنٹے ٹاک شوز کرتے یا ان کے بارے میں لکھتے ان حضرات کو آج تک احتساب یا قانون کے کٹہرے میں نہیں لایا گیا. وگرنہ بڑے بڑے سیٹھوں سے لیکر منشی اینکرز تک کے ناجائز دھندوں اور کالے دھن کو ثابت کرنا ہرچند بھی مشکل نہیں.

ملک کے پانچ بڑے میڈیا ہاوس کے مالکان کے ٹیکس چوری اور کالے دھن کی فائلیں ارباب اختیار کے پاس موجود ہیں لیکن اپنے اپنے مفادات کی وجہ سے ان فائلوں کو کبھی بھی منظر عام پر نہیں لایا جاتا. ان پانچ بڑے میڈیا گروپس کے مالکان میں سے ایک حکومت کی مالش پر معمور ہے اور دو تحریک انصاف کی مالش پر.بقیہ دو گروپس کے مالکان مالش کرنے کیلئے خاکی چڈی میں ملبوس پہلوان کو ہمیشہ ترجیح دیتے ہیں.

اسی طرح ان کے پاس موجود مالشیے اینکرز بھی اپنی اپنی مرضی کا پہلوان چن کر مالش کا فریضہ انجام دیتے رہتے ہیں. اپنے اپنے فن اور مالش کرنے کے انداز سے یہ جس پہلوان کو متاثر کر سکیں اس کی مالش پر معمور ہو جاتے ہیں. یاد رہے کہ مالش کرنے کے فن ہر اعترض ہرچند نہیں ہے لیکن سچ بولنے لکھنے یا دکھانے کیلئے مالش کی نہیں بلکہ اخلاقیات کی ضرورت ہوتی ہے.

اب ایک ٹی وی اینکر جو چند برس کے اندر موٹر سائیکل سے مرسڈیز اور ذاتی جہاز کا مالک بن چکا ہے اور عملی صحافت کی الف ب سے بھی واقف نہیں اس کے پاس کیا اخلاقی جواز ہے کہ وہ سچائی کا پرچار کرتے ہوئے ہر وقت کسی کے کالے دھن پر انگلیاں اٹھائے. اسی طرح کسی کی ریسرچ چوری کر کے قیامت کے پروگرام کرنے والا شخص ہو یا اپنی بیوی کے رنگے ہاتھوں فرمائشی اور پیڈ پروگرام پکڑے جانے کے بعد بھی منہ بند رکھنے والا اینکر ان سب کے پاس کم سے کم بولنے کیلئے سچ ہرگز بھی نہیں ہو سکتا.

یہ مالشیے صحافت کے نام پر اپنا اپنا الو سیدھا کر کے اس مقدس شعبے کی نہ صرف تذلیل کا باعث بنتے ہیں بلکہ عوام کو ہمہ وقت ایک اضطرابی کیفیت کا شکار رکھتے ہیں. ایک ایسا اضطراب جو عوام کے اصل مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے میں مسلسل کامیاب رہتا ہے. اگر بات یہاں تک بھی ہو تو ٹھیک ہے لیکن اپنے اپنے پہلوانوں کی طاقت کے اکھاڑے میں ہار کے بعد یہ مالشیے عوام کے اجتماعی شعور پر انگلیاں اٹھانے لگ جاتے ہیں جو کہ کسی بھی صورت قبول نہیں.جس عوام کو جاہل قرار دیکر یہ مالشیے اپنے اپنے پہلوانوں کی شکست کی محرومی نکالتے دکھائی دیتے ہیں اسی عوام کی بدولت صحافت کی آڑ میں یہ مالشیے اپنے اپنے دھندے کو چلانے کے قابل ہیں.کتنے لوگ آپـکا پروگرام دیکھتے ہیں یا اخبار کو پڑھتے ہیں اسی بنیاد پر نہ صرف اشتہارات حاصل کر کے منافع کمایا جاتا ہے بلکہ بلیک میلنگ کے ریٹ میں اضافہ بھی اسی وجہ سے ہوتا ہے. یعنی بیچارہ عام آدمی پہلوانوں کے ہاتھوں ذلیل و رسوا ہونے کے بعد ان مالشیوں سے بھی طعنے سنتا ہے.

اب وقت کی اہم ضرورت ہے کہ صحافت کے شعبے سے مالشیوں کو باہر نکال پھینکا جائے. کیونکہ پہلوانوں کی مالش میں مصروف مالشیے ملک میں ایک عجیب و غریب پراپیگینڈے پر مبنی ذہن سازی کرتے ہی چلے جا رہے ہیں.نئی نسل یا عام آدمی کیلئے پراپیگینڈے اور حقائق میں تمیز کرنا تقریبا ناممکن بنا دیا گیا ہے. کسی بھی اینکر یا کالم نویس کا کام معلومات اور اپنا نقطہ نظر عوام الناس تک پہنچانا ہوتا ہے نا کہ عوام کو جاہل قرار دیتے ہوئے ان پر اپنی آرا مسلط کرنے کی کوشش. اختلاف رائے آزادی اظہار اور ایک منظم پراپیگینڈے میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے.

صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون بھی اس لیئے کہا جاتا ہے کہ یہ رائے عامہ ہموار کرنے اور عوام کی ذہن سازی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے.ایک دوسرے کے اختلاف رائے کو برداشت کرنے کا درس دینے میں بھی اس شعبے کا مرکزی کردار ہوتا ہے.لیکن ہمہ وقت نفرتوں اور دوسروں کے اختلاف رائے کو جاہلیت یا وطن دشمنی قرار دینا بھی ایک قسم کی شدت پسندی ہے جس کی روک تھام وقت کی اشد ضرورت بنتی جا رہی ہے. امید غالب ہے پرانے اور دیگر سینئر صحافی جلد ہی صحافت کے شعبے میں چھپے مالشیوں کو بھی بے نقاب کرنے دوارے کوئی ضابطہ اخلاق یا قاعدہ ضرور ترتیب دیں گے.آخر کو صحافت اور مالش میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے