ازخود نوٹس کی حدود اورتعلیمی نصاب

’’پاکستان اسٹڈیز انٹرمیڈیٹ کے نصاب میں تحریکِ خلافت میں گاندھی کے کردار پر معروضی انداز میں نظرثانی کی جائے“۔ یہ تعلیمی سفارش ۱۹۳۷ ء میں ہندوستان کے صوبوں میں قائم کانگریسی حکومت کے کسی متعصب راہنما کی نہیں ہے، پنجاب کی موجودہ مسلم لیگی حکومت کی نگرانی میں لاہور کے کالجوں میں دو پروفیسرصاحبان اور ایک انتظامی افسر پرمشتمل ایک کمیٹی نے رواداری اور روشن خیالی کے فروغ کے لیے جو سفارشات مرتب کی ہیں، یہ ان میں سے ایک چاول ہے۔ ملکی اور صوبائی سطح پر مختلف نصاب میں چند مزید مجوزہ تبدیلیاں ملاحظہ ہوں۔ بریکٹ میں ہم نے اپنا تبصرہ دیا ہے:

۱۔ ’’طلبا کو پڑھایا جائے کہ محمدﷺ سابقہ مذاہب کی تنسیخ کے لیے نہیں آئے بلکہ ابراہیم موسیٰ ، داؤد، سلیمان اورعیسیٰ علیہم السلام کا پیغام وہی تھا جو محمدﷺکا ہے۔‘‘ (گویا یہودیت اورمسیحیت اپنی موجودہ شکل میں وہی مذاہب ہیں جومذکورہ پیغمبروں کے تھے۔ اسے قرآنی آیات کی تحریف کہاجائے یا استخفاف ؟ )

۲۔ ’’تحریک پاکستان کا ازسرنو معروضی جائزہ لے کر اس میں اقلیتوں کا کردار اجاگر کیاجائے۔‘‘ (یہ معروضی جائزہ مسلم لیگ کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل لے چکے ہیں۔ ’’حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا قیام مسلمان اور صرف مسلمان قوم کی جدوجہد اور قربانیوں کے نتیجہ میں عمل میں آیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ہماری آبادی کے دوسرے تمام عناصر خصوصاً ہندو قوم کے پاکستان کو وجود میں نہ آنے دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ ‘‘ ڈان، ۲۳دسمبر۱۹۵۵ء۔ معروضی انداز میں بتایاجائے کہ کیا اختلاف کی کوئی گنجائش ہے؟)

۳۔ ’’ یورپ میں احیاء علوم کی تفصیلات نصاب میں شامل ہوں۔‘‘ (مغربی فکر کے مطابق یونانی عہد کے بعد انسانیت پر ایک تاریک دور (dark age) آیا جس کا خاتمہ، یورپی صنعتی انقلاب کے ذریعے ہوا۔ اس ’’تاریک دور‘‘ میں مسلمانوں کا عہدِ زریں شامل ہے جس میں عورت کو پہلی دفعہ مرد کے برابر قرار دے کر اسے جائیداد کا حق دیا گیا۔ برطانیہ میں عورت کو یہ حق ۱۹۳۵ء میں ملا۔ ) جی ہاں ! اب ہمارے بچے خلافتِ راشدہ کو عہد ظلمات کے طور پر پڑھیں گے۔

محترم قارئین! یہ نمونے کی چند سفارشات ہیں جو پشاور میں ایک چرچ پر حملے کے ثمرات ہیں۔ دہشت گردی کی جنگ میں ایک اندازے کے مطابق پچاس ہزار سے زیادہ مسلمان مارے گئے اور مسلمان صبر اور شکر کے ساتھ یہ جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن ادھر ایک چرچ پر ستمبر ۲۰۱۳ء میں حملہ ہوا تو ملاحظہ ہو کہ ایک نادیدہ تسلسل کے ساتھ کیا کیا فیصلے ہوئے جن کا پاکستانی قوم کو احساس تک نہیں ہونے دیا گیا۔

ایک این جی او کی درخواست پرسپریم کورٹ نے اس چرچ پر حملے کا ازخود نوٹس لیا۔ اقلیتی برادریوں کی چند دیگردرخواستوں کو جمع کرکے اٹارنی جنرل ، صوبائی ایڈووکیٹ جنرل اور دیگر متعلقہ افسران کو بلایا گیا۔ سماعت کے بعد معزز عدالت نے ۱۹جون ۲۰۱۴ ء کو فیصلہ سنایا۔ یہ فیصلہ ازخود نوٹس پر تین فیصد اقلیتوں کے لیے تھا لیکن اس فیصلے سے ستانوے فی صد مسلمانوں کی نسلوں پرجو اثرات مرتب ہوں گے، انہیں متصورکرکے دل ڈوب جاتا ہے۔ اور تماشا یہ ہے کہ مسلمان نہ اس مقدمے میں فریق تھے اور نہ انہیں سنایا گیا۔ معزز عدالت نے حکم دیا کہ ’’اسکول اور کالج کے درجات پر ایسا مناسب نصاب تشکیل دیاجائے جو مذہبی رواداری کی ثقافت کو فروغ دے۔ فیصلے میں۱۹۸۱ء میں اقوام متحدہ نے اپنی ایک بنیادی قرارداد کاحوالہ دیاکہ ’’بچے کو مذہب اور اعتقاد کی بنیاد پر کسی بھی قسم کے تعصب سے محفوظ رکھا جائے گا اور اس کی نشوونما سمجھ داری، رواداری، افراد کے مابین دوستانہ روابط، امن اور آفاقی بھائی چارے، مذہبی آزادی اور دوسرے اعتقاد کی تعظیم اور اس شعور کے ساتھ کی جائے گی کہ اس کی صلاحیتیں اور توانائی اپنے ساتھیوں کے لیے وقف ہوگی‘‘۔

فیصلے کی نقل متعلقہ اداروں کو بھیجی گئی۔ پنجاب حکومت نے تین مقامی صاحبان پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی جس نے وہ سفارشات مرتب کیں جن کی ہلکی سی ایک جھلک آپ سطور گزشتہ میں دیکھ چکے ہیں۔ تین مقامی اور مطلقاً غیرمعروف افراد کی ان سفارشات کو ۲فروری ۲۰۱۶ء کو پنجاب حکومت نے سرکاری ونجی جامعات کو اس ہدایت کے ساتھ ارسال کیا کہ ان سفارشات پرعمل کرکے بالوضاحت بتایاجائے کہ نصاب میں کیا ترامیم کی گئیں اور جن کتب میں ترامیم کی گئیں وہ کتب بھی منسلک کی جائیں۔ اسی پربس نہیں، جامعات امتحانی سوالات بھی اب ان تین غیرمعروف افراد کے افکار کی روشنی ہی میں مرتب کیاکریں گی۔

اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وطن عزیز میں کیا کیا بارودی سرنگیں بچھ رہی ہیں اور اس جمہوری ملک میں ستانوے فی صد آبادی کو پتہ ہی نہیں کہ آنے والی نسلوں کے ساتھ کیا ہورہاہے؟ اس مقدمے میں تمام فریقوں نے یہ فرض کرلیا ہے کہ چرچ پر حملہ آور غلط نصاب تعلیم کی پیداوار پاکستانی طلبا تھے۔ نصاب تعلیم عدم برداشت پر مبنی ہے (اس کا کوئی ثبوت فیصلے میں نہیں )۔ چونکہ اس ازخود نوٹس کے تمام متاثرین غیرمسلم افراد تھے، اس لیے نہ تو مسلمانوں میں سے کسی کو بطور فریق سنا گیا ، نہ کسی سطح کے تعلیمی نصاب کی جانچ پرکھ کی گئی ۔ نہ کسی جامعہ کے وائس چانسلر سے رابطہ کیا گیا۔ عدالت عظمیٰ کے مکمل احترام کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ ایک ایسا یک طرفہ( ex party) فیصلہ ہے جس کے متعلقہ فریقوں اور متاثرین کو سنا ہی نہیں گیا۔ معزز جج صاحب نے فیصلہ تحریر کرتے وقت ان تمام حدود سے تجاوز کرتے ہوئے فیصلہ دیا ہے جو عدلیہ کے لیے پوری دنیا مسلمہ ہیں۔ اسی فیصلے میں یہ حکم بھی موجود ہے کہ ایک خاص تربیت یافتہ پولیس فورس تشکیل دی جائے جو اقلیتی عبادت گاہوں کی حفاظت کرے۔ معزز عدالت نے اس مختصر سے حکم کے مضمرات پر شاید غور نہیں کیا ۔ کل کو نجی اسکولوں کے مالکان دہشت گردی کے نام پر عدالتِ عظمیٰ میں چلے گئے تو ان کے لیے ایک نئی پولیس فورس کیوں نہ تشکیل دی جائے ۔ فی الاصل عدلیہ کا کام ملکی قانون کے مطابق فیصلے کرنا ہوتا ہے نہ کہ انتظامی احکام جاری کرنا۔ اس کی بہترین مثال موجودہ چیف جسٹس صاحب نے قائم کی ہے: رینجرز نے گزارش کی کہ ہمیں تھانے قائم کرنے کی اجازت دی جائے تو سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ ہم قانون کے مطابق فیصلے کریں گے کسی کو انتظامی حکم نہیں دے سکتے۔

ذرا اندازہ کریں کہ کتنی خاموشی اور تسلسل سے تبدیلیوں کی ایک رو چلتے چلتے مسلمانوں کی نسلوں کو لپیٹ میں لے آئی جنہیں سنا ہی نہیں گیا۔ دہشت گرد عالمی غنڈوں کے پروردہ لوگ ہیں ۔ ان کا عامۃ الناس اور اسلام سے کیا تعلق؟ چرچ پر حملے کو جواز بناکر ایک این جی او کی درخواست اور ازخود نوٹس پر سماعت جس میں حقائق کا ذکر تک نہیں، یہ سارا فیصلہ مفروضوں پر مبنی ہے۔ کیا چرچ کے ملزمان کہیں پکڑے گئے؟ اگر ہاں تو کیا ان پر کوئی ایسی جرح ہوئی جس میں انہوں نے اپنے اس فعل بد کو تعلیمی نظام کی پیداوار قرار دے کر کوئی اعتراف کیا ہو۔ کیا کسی نے نصاب تعلیم کا جائزہ لے کر اس کے توجہ طلب پہلو اجاگر کیے۔ یہ سب کچھ نہیں ہوا۔ ازخود نوٹس کی تحدید اس قدر مختصر ہوا کرتی ہے کہ عدالتیں اس کوچے سے جلدازجلد نکلنے کی کوشش کرتی ہیں۔ زیرِنظر فیصلے میں معزز عدالت کے سامنے ایک اقلیتی عبادت گاہ پر حملے کے مرتکبین کی گرفتاری مسئلہ تھا لیکن معزز جج صاحب نے نادیدہ و نامعلوم مجرموں کو اولاً مسلمان فرض کیا ۔ پھر یہ فرض کیا کہ ملکی نظام تعلیم ان مسلمانوں کی تربیت کا ذمہ دار ہے۔ لہٰذا فیصلہ کیا گیا کہ نصاب تعلیم تبدیل کیا جائے۔
اس قصے میں کوئی ایک لطیفہ سرزد ہوا ہو تو اس کا ذکر کیا جائے۔

جامعات دنیا بھر کی طرح اپنے ملک میں بھی خودمختار ادارے ہیں ۔ حکومتیں ان سے تحقیق اور جستجو کی درخواست تو کر سکتی ہیں، انہیں کوئی حکم نہیں دے سکتیں ۔ حکم دینے کے لیے متعلقہ پارلیمان سے جامعہ کے ایکٹ میں ترمیم لازم ہے۔

اس زیرنظر مقدمے میں حکومت پنجاب نے لاہور کے تین مقامی کالجوں کے تین افراد (ان تین میں سے ایک صاحب انتظامی عہدے دار ہیں اور صرف ایک پی ایچ ڈی ہیں) پر مشتمل ایک کمیٹی سفارشات مرتب کرنے کے لیے قائم کی۔ یہ اصحاب علمی دنیا میں کتنے معروف ہیں، اس سے بحث نہیں ہے۔ قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت یہ بھی ہے کہ لونڈی اپنی مالکہ جنا کرے گی۔ قارئین کرام اب کالجوں کے ایم اے پاس حضرات اور انتظامی افسران صف اول کی جامعات کے پی ایچ ڈی پروفیسروں کے لیے ہدایات مرتب کیا کریں گے۔ یہ جامعات میں کوالٹی اینہانسمنٹ کے ثناخوانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے یا قرب قیامت کی علامت؟

سینیٹ ، قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے معزز ارکان سے دردمندانہ گزارش ہے کہ عوام کی دی گئی پانچ چھ سالہ امانت کی پاسداری میں براہ کرم ان بارودی سرنگوں پر نظر رکھا کریں۔ اس اہم فیصلے کے مضمرات پر ماہرین تعلیم کو غور کرنا چاہیے۔ یہ دینی و غیر دینی سیاست کا موضوع ہی نہیں۔ معزز جج صاحب کے اس فیصلے کے خلاف اپیل کے راستے موجود ہیں۔ اصحاب دانش سے گزارش ہے کہ اس فیصلے کے مضمرات پر غور کرکے اس کے تدارک کا بندوبست کیا جائے ورنہ طلبا جب کتابوں میں خلافت راشدہ کو ظلمات کا دور پڑھیں گے تو ان سے پھولوں کی توقع کون کر سکتا ہے؟ کیا یہ فیصلہ ہمیں رواداری اور عدم برداشت کی طرف لے جارہا ہے؟ معاشرتی طبقات میں بڑھتی ہوئی خلیج کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ فیصلہ اور تعلیمی سفارشات طبقاتی بُعد کو ہوادیں گے۔

ماہرین قانون ، ماہرین تعلیم، اصحاب دانش اور فہمیدہ افراد سے توقع کی جاتی ہے کہ اس فیصلے کے مضمرات پرغور کرکے اس کے تدارک کا کوئی راستہ نکالیں گے تاکہ معاشرے کو دوسری انتہا پر جانے سے روکا جائے۔

پروفیسرڈاکٹر شہزاد اقبال شام اسلامی قانون کے معروف اسکالر اور متعدد کتابوں کے مصنف ہیں ۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے ریٹائرمنٹ کے بعد آج کل آپ گجرات یونیورسٹی میں تدریسی زمہ داریوں کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ وکالت کے شعبے سے بھی وابستہ ہیں۔

بشکریہ ”وجود” ڈاٹ کام

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے