بم کیسے چلتا ہے؟

شہزادہ سلیم کو اپنے کبوتروں سے بہت پیار تھا، کنیز کے ہاتھ میں وہ کبوتر تھے ۔۔ کہ اچانک ایک کبوتر اس کے ہاتھ سے نکلا اور اڑن چھو ہو گیا۔۔
کنیز نے شہزادے کو عرض کی، حضور والا۔۔۔ کبوتر اڑ گیا
اڑ گیا۔۔۔ وہ کیسے؟ شہزادے نے پوچھا
کنیز نے ہاتھ سے دوسرا کبوتر ہوا میں اچھالتے ہوئے کہا ایسے۔۔۔
اس طرح کنیز اور شہزادہ کی محبت کا آغاز ہوا ۔۔ محبت اتنی بڑھی کہ بادشاہ سلامت نے کنیز کو بہو بننے سے روکنے کے لیے دیوار میں چنوا دیا ۔۔ یوں محبت کی یہ داستان امر ہوگئی۔۔

آج کے اخبار میں ماڈرن دور کے شہزادہ سلیم اور جدید کنیز کی کہانی پڑھنے کو ملی۔۔ کراچی جیسے جدید شہر میں دور جدید کے شہزادہ سلیم ہیں ایک جج۔۔۔ جو مقدمہ سن رہے تھے اور کنیز کی صنف تبدیلی پر پیشگی معذرت چاہتے ہوئے یہ بتاؤں کہ کنیز ایک مونچھوں والا سندھ پولیس کا تفتیشی افسر تھا۔۔

مقدمہ کی کارروائی کے دوران شہزادہ سلیم( جج صاحب )کو اشتیاق ہوا کہ بم چلانے کا طریقہ سیکھ لیں، انہوں نے کنیز (تفتیشی افسر) سے پوچھا کہ یہ دستی بم کیسے چلتا ہے۔۔۔؟

تفتیشی افسر بھی کنیز کی طرح شرماتے ہوئے بم کی پن دانتوں سے کھینچ کر نکالتا ہے اور بولتا ہے ۔۔۔ ایسے۔۔
بس اس کے بعد کچھ نہ پوچھیں کیا ہوا۔۔۔ کیونکہ بم اصلی تھا اور کم بخت کبوتر کی طرح اڑا بھی نہیں۔۔ ایک زوردار دھماکہ کی آواز آئی اور بم پھٹ گیا۔۔۔پانچ افراد زخمی ہو گئے۔

میرے خیال میں تو آج بھی ضرورت ہے کہ کنیز کو دیوار میں نہ چنوایا جائے بلکہ اس بار میں توسفارش کروں گا کہ شہزاد سلیم یعنی جج صاحب کو دیوار میں زندہ چنوا دیا جائے۔

یعنی کیا معصومیت کا شاہکار ہمارے جج صاحب اور اس سے بھی زیادہ معصوم ہمارے تفتیشی افسر صاحب۔۔ ایسے جیسے جج صاحب نے موبائل فون کا لاک یا کوئی ویب سائٹ کھول کر دینے کا کہا ہو ۔۔ اور تابعداری تو سندھ پولیس پر ختم ہے، یس سر۔۔ کہا اور سائیں سرکار کا ہر حکم بجا لائے ۔جج صاحب کے بم چلانے کا طریقہ سیکھنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جناب منصف نے انصاف کے کام سے ریٹائر ہونے کے بعد بم چلانے کا کام ہی شروع کرنا تھا۔

بھلا کوئی پوچھے جج صاحب سے کہ جناب یہ کوئی شب برات تھی جس کے پٹاخے چلنے کا مزا لینے کا دل چاہا۔۔ بڑے بھائی کو کہا ۔۔ پیارے بھائی ، یہ پٹاخہ چلا دو۔۔۔ بڑے بھائی نے بھی فوراً آگ لگائی ، پٹاخے کے دھماکے کی آواز آئی۔۔ اور پھر تمام بچوں کی تالیاں۔۔
اگر جہاں پناہ نے کوئی فرمائش کر ہی دی تھی تو کنیز نے پوری کرنی ہی کرنی تھی۔۔ کیا کمال ہے جناب۔۔

کسی ڈاکو نے پولیس والے کو کہا۔۔ ڈکیتی میں نے کر لی ہے۔۔ دکان کے مالک کو گولی بھی مار دی ہے۔۔ جب بھی پکڑا گیا قتل کی سزا تو ملے گی ہی۔۔ اس لیے مجھے پکڑنے کی کوشش کرنے کا سوچنے سے بھی پہلے میرے ہاتھ میں بندوق دیکھ لو۔۔ تمہاری بندوق کی طرح زنگ آلود نہیں ، پاکستانی نہیں امپورٹڈ ہے اور ایک وقت میں پورا میگزین خالی ہو جاتا ہے۔ اگر پکڑنے کی کوشش کی تو گولی مار دوں گا۔
پولیس والے نے کہا جناب ڈاکو صاحب۔۔ گولی نہ چلانا۔ گولی مجھے لگی تو خون نکل آئے گا اور میری وردی خراب ہو جائے گی۔۔ سرکار تو ڈرائی کلیننگ کے پیسے نہیں دیتی۔

اسی طرح اپنے قبلہ تفتیشی صاحب بھی کہہ سکتے تھے کہ جناب اگر یہ بم پھٹا تو آپ کا گاؤن بھی خراب ہو سکتا ہے اور میری وردی بھی۔۔۔ لیکن مرد کا بچہ تھا، جج صاحب کے کہنے پر اپنی وردی کی دھلائی کی پرواہ کیے بغیر بس پن کھینچ دی۔۔ اور پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔۔

میری گزارش ہے قدیم علی شاہ صاحب۔۔ اوہو، معاف کیجئے گا، قائم علی شاہ صاحب سے ۔۔ جناب تابعداری اور بہادری کی اعلیٰ مثال قائم کرنے پر اپنے تفتیشی افسر صاحب کو۔۔ ترقی بھی دی جائے اور ہوسکے تو اعلیٰ ترین سول اعزاز بھی عطا کردیا جائے۔۔دوسری سفارش جج صاحب کے لیے ہے کہ انہیں بعد از ریٹائرمنٹ بم ڈسپوزل سکواڈ میں تعینات کر دیا جائے۔۔

اور تیسری سفارش ۔۔۔ اتنے بہترین انداز میں آپ کو مغلیہ دور کا قصہ سنانے پر مجھے بھی کوئی اعزاز عطا ہو۔۔۔ آپ قائم ہیں اور قائم رہیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے