خورشید شاہ کا چوہدری نثار پر ‘بے وفا’ ہونے کا الزام

اسلام آباد: قومی اسمبلی میں پاناما لیکس کے معاملے پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان لفظی جنگ نے اُس وقت شدت اختیار کرلی جب قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ ‘بلیک میلنگ ‘ کا سہارا لینے پر وزیر داخلہ چوہدری نثار پر برس پڑے اور ان پر وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ ‘بے وفائی’ کا الزام بھی لگا ڈالا.

عام طور پر قومی اسمبلی کے فلور پر کوئی بھی سید خورشید شاہ کے کنٹرول سے باہر ہونے کی توقع نہیں کرسکتا، کیونکہ بحیثیت ایک تجربہ کار سیاستدان، قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے متعدد مواقعوں پر خود کو ایک سمجھدار انسان ثابت کیا ہے.

لیکن گذشتہ روز معاملہ کچھ مختلف تھا.

اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیرداخلہ کے اس اعتراف پر کہ ‘لندن کے مے فیئر اپارٹمنٹس بلا شبہ نواز شریف کے ہیں’، خورشید شاہ نے کہا، ‘میں کل پریس کانفرنس دیکھ رہا تھا، جس میں (چوہدری نثار) مسکرا رہے تھے، ایسے جیسے انھوں نے اپنا چاقو میاں نواز شریف کو مار دیا ہو.’

اپوزیشن لیڈر نے الیکشن کمیشن کو جمع کرائے گئے اثاثوں کی تفصیلات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ‘پورا تنازع یہ ہے کہ ان کا اعلان نہیں کیا گیا تھا’.

انھوں نے وزیرداخلہ کی اپنی پارٹی لیڈر کے ساتھ وفاداری پر بھی سوال اٹھایا.

ان کا کہنا تھا، ‘ایک ایسا سیاستدان، جو اس وقت چین کی نیند سوتا رہا، جب اس کا لیڈر جیل میں یا جلاوطنی کی زندگی گزار رہا تھا، شیر نہیں کہلا سکتا’، یہاں خورشید شاہ 1999 کی فوجی بغاوت کے دوران چوہدری نثار کی گھر پر نظربندی کا تذکرہ کر رہے تھے جب کہ شریف برادران کو اڈیالہ جیل بھیج دیا گیا تھا.

خورشید شاہ نے اپنی تقریر کے آغاز میں ہی تلخ لہجہ اپنالیا تھا، جب ان کا کہنا تھا، ‘پارلیمنٹ ایک بہت اہم فورم ہے، یہاں تند و تیز اور شیریں لفظوں کا تبادلہ ہوا ہے، جھوٹ بولے گئے ہیں اور الزامات لگائے گئے ہیں.’

انھوں نے اصرار کیا کہ ان کا سیاسی کیریئر بالکل ایک کھلی کتاب کی مانند ہے اور ساتھ ہی چوہدری نثار کی جانب سے خود پر لگائے گئے الزامات پر بھی مایوسی کا اظہار کیا.

خورشید شاہ کا کہنا تھا، ‘میں ایک ایسا سیاستدان ہوں جس نے ایک اسٹوڈنٹ لیڈر کی حیثیت سے بالکل نچلی سطح سے کیریئر کا آغاز کیا، میں نے بھٹو خاندان کے شہیدوں کی قربانیاں دیکھی ہیں، میں کرپشن کرنے کے بجائے مرنے کو ترجیح دوں گا’.

انھوں نے دعویٰ کیا کہ وہ اب بھی اُسی کاروبار سے کما رہے ہیں جو انھوں نے 1973 میں شروع کیا تھا، ساتھ ہی خورشید شاہ نے اصرار کیا کہ ان کے کوئی آف شور اکاؤنٹس نہیں ہیں، صرف 2 بینک اکاؤنٹس ہیں.

وزیر داخلہ چوہدری نثار کی اپنے لیے کی گئی ایک پیشکش کا بظاہر جواب دیتے ہوئے خورشید شاہ نے کہا، ‘حکومت میری اور میرے اثاثوں کی چھان بین کرسکتی ہے، انکوائری کمیٹی اپوزیشن کے بجائے حکومتی اراکین پر مشتمل ہونی چاہیے اور جس دن یہ ثابت ہوگیا کہ میں نے ایک فیصد بھی کسی سے لیا ہے، وہ دن پارلیمنٹ میں میرا آخری دن ہوگا.’

خورشید شاہ نے چوہدری نثار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ‘میں اُس وقت اسٹوڈنٹ لیڈر تھا، جب آپ کچھ بھی نہیں تھے، میں نے کبھی پارٹی وفاداریاں تبدیل نہیں کیں، کبھی اپنے لیڈروں کو دھوکا نہیں دیا اور میں اُس وقت اپنے گھر یمں کبھی چین کی نیند نہیں سویا جب میرے لیڈر جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے.’

یہ کہتے ہوئے کہ پیپلز پارٹی سینیٹر اعتزاز احسن اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کا جواب خود دیں گے، خورشید شاہ نے وزیر داخلہ کی جانب سے خود پر لگائے گئے الزامات بھی بتائے.

انھوں نے چوہدری نثار کے اس بیان پر کہ، ‘میرے پاس اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کے خلاف نیب سمیت کئی فائلز موجود ہیں’، سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ نیب اندرونی فائلز کسی وزیر کو کیسے دے سکتا ہے جبکہ قومی احتساب بیورو (نیب) وزارت داخلہ کے ماتحت بھی نہیں ہے.

خورشید شاہ نے وزیر داخلہ کا بیان دہرایا، جس میں ان کا کہنا تھا کہ ‘میں اُس دن کا انتظار کر رہا ہوں جب خورشید شاہ میرے خلاف بولیں گے تو میں وہ فائلیں منظر عام پر لے آؤں گا’.

اپوزیشن لیڈر نے اس بیان پر وزیر قانون زاہد حامد سے وضاحت طلب کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کا بیان دے کر وزیر داخلہ اپنے عہدے کا تقدس پامال کررہے ہیں، جسے ‘بلیک میلنگ’ کے ذمرے میں بیان کیا جاسکتا ہے.

خورشید شاہ نے وزیر داخلہ کو چیلنج کیا کہ وہ پارلیمنٹ کے سامنے یہ فائلز پیش کریں، ‘ہم ان کے بارے میں ابھی بات کریں گے’.

انھوں نے اسپیکر اسمبلی سے کہا کہ وہ کسی کو مقرر کریں تاکہ ان کے اثاثوں کی چھان بین کی جاسکے، خورشید شاہ کا کہنا تھا، ‘خدا کے لیے میں کہتا ہوں چھان بین کروائیں’.

خورشید شاہ شاید اسی تندو تیز لہجے میں اظہار خیال جاری رکھتے جب ترک پارلیمنٹ کا ایک وفد دورے کے لیے اسمبلی گیلری میں پہنچا اور اپوزیشن لیڈر کو اپنا لہجہ نرم کرنا پڑا.

بعدازاں وزیر قانون زاہد حامد کو بھی خورشید شاہ کے سوال کا جواب دینے کا موقع مل گیا اور انھوں نے کہا کہ اس بات کا جواب وزارت داخلہ خود دے گی، جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ پنجاب ہاؤس سے ایک اور پریس کانفرنس متوقع ہے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے