افغانستان: اعلی افسر سمیت 8 اہلکار ہلاک

کابل: افغانستان میں حملے میں اعلیٰ سیکیورٹی افسر سمیت 8 اہلکار ہلاک ہو گئے۔

افغانستان کے نشریاتی ادارے خاما پریس کی رپورٹ کے مطابق صوبہ تخار میں قندوز ہائی وے کے کمانڈر کے قافلے پر سڑک کنارے نصب بم سے حملہ کیا گیا۔

حملے میں پولیس کمانڈر اور ان کے 7 محافظ ہلاک ہوئے۔

اس حملے کی ذمہ داری فوری طور پر کسی بی گروہ نے قبول نہیں کی تاہم اس طرح کی کارروائیاں عام طورپر طالبان کی جانب سے کی جاتی رہی ہیں۔

افغانستان کا شمال مشرقی صوبہ تخار دیگر صوبوں کے مقابلے میں پرتشدد کارروائیوں کا زیادہ شکار ہے۔

اسی صوبے میں طالبان سمیت دیگر گروہ متعدد بار سیکیورٹی اداروں کو نشانہ بنا چکے ہیں۔

دو روز قبل افغان طالبان نے موسم بہار کے آمد کے ساتھ ہی امریکی حمایت یافتہ حکومت کے خلاف بڑے آپریشن کا اعلان کیا تھا، اس آپریشن کو طالبان نے ‘عمری آپریشن’ کا نام دیا گیا، ملک کے کئی دیہی اضلاع پر طالبان کا قبضہ ہے جبکہ گزشتہ سال انہوں نے جنوبی شہر قندوز پر بھی 3 روز تک قبضہ جمائے رکھا تھا۔

خاما پریس کی ایک اور رپورٹ کے مطابق افغان وزارت دفاع کی جانب سے جاری ایک بیان میں دعویٰ کیا گیا کہ صوبہ جوزجان، کنڑ، بغلان، باغدیس، بدخشاں، ہلمند اور سرپل میں سیکیورٹی اداروں کے آپریشن میں طالبان کے 110 عسکریت پسندوں میں ہلاک کر دیا گیا جبکہ کارروائی میں 124 جنگجوؤں زخمی بھی ہوئے، ہلاک اور زخمیوں میں صوبائی گورنر، اہم کمانڈر سمیت 4 غیر ملکی شدت پسند شامل ہیں۔

وزارت دفاع کی جانب سے یہ واضح نہیں کیا گیا کہ 7 مختلف صوبوں میں کارروائیوں میں کتنے سیکیورٹی اہلکار زخمی یا ہلاک ہوئے۔

رپورٹ کے مطابق صوبہ جوزجان میں طالبان کے کمانڈر قاری نور اللہ اور 4 غیر ملکیوں سمیت 21عسکریت پسند ہلاک ہوئے جبکہ صوبائی گورنر قاری حافظ اللہ کارروائی میں زخمی ہوئے۔

صوبہ کنڑ میں 23 عسکریت پسند ہلاک اور 40 زخمی، صوبہ بغلان میں 9 عسکریت پسند ہلاک اور 8زخمی، صوبہ باغدیس میں 14 عسکریت پسند ہلاک اور 10 زخمی، بدخشاں میں 13 عسکریت پسند ہلاک اور 3زخمی ہوئے۔

محکمہ دفاع کے مطابق غزنی، پکتیکا، میدان، وردک، قندھار۔ زابل، سرپل اور ہلمند میں بھی 30 طالبان ہلاک کیے گئے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال افغانستان میں شدت پسندی کے واقعات میں 11 ہزار سے زائد شہری ہلاک و زخمی ہوئے تھے۔

ملا عمر کی ہلاکت کی خبر منظر عام پر آنے کے بعد گزشتہ ایک سال سے افغان طالبان کی قیادت ملا عمر کے نائب ملا اختر منصور کر رہے ہیں۔

ملا اختر منصور کے امیر بننے کے بعد طالبان میں اختلافات پھوٹ پڑے اور وہ مختلف دھڑوں میں تقسیم ہوگئے تھے البتہ گزشتہ ماہ طالبان کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ ان کے اختلافات ختم ہو گئے ہیں اور مخالف دھڑے کے رہنماؤں کو بھی طالبان کی شوریٰ شامل کر لیا گیا ہے۔

طالبان کے کئی چھوٹے گروپس شام اور عراق کے بعد افغانستان میں قدم جمانے والی دہشت گرد تنظیم داعش میں بھی شامل ہوچکے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے