مہاتما گاندھی …..مختصر ذکر ..

ستم ظریفی دیکھیں جو شخص زندگی بھر عدم تشدد کا پرچار کرتا رھا اور جس کے فلسفہ کے بارے میں دعوی کیا جاتا ھے کہ برصغیر کی آزادی اور پرامن انتقال اقتدار کا ذریعہ بنا وہ خود تشدد کا شکار ھوگیا ..

اھنسا کا دیوتا موھن داس کرم چند گاندھی 12 اکتوبر 1869 ,کو کاٹھیاواڑ کے شہر پور بند میں پیدا ھوا ,انگلستان میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے بعد جنوبی افریقہ میں وکالت کرنے پہنچے تو انکو نسلی امتیاز کا سامنا کرنا پڑا – وھاں حکمران سفید فام یورپی مقامی سیاہ فاموں اور ھندوستانیوں سے توھین آمیز رویہ رکھتے تھے – چنانچہ انہوں نے وکالت کے ساتھ ساتھ نسلی امتیاز کے خلاف ستیہ گرہ یعنی عدم تشدد پر مبنی مزاحمتی تحریک شروع کردی -1905 میں انہوں نے مغربی طریقے ترک کرکے انتہا درجہ کی سادگی اپنا لی ,
1915 میں مہاتما گاندھی ھندوستان آگئے اور تحریک آزادی میں شامل ھوگئے ,برصغیر کی آزادی کی امید میں پہلی جنگ عظیم میں انہوں نے برطانیہ کی حمائت کی ,لیکن جنگ کے خاتمہ پر آزادی کے آثار نظر نہ آنے پر 1919 میں انہوں نے برطانوی راج کے خلاف پر امن عدم تعاون اور ستیہ گری کی تحریک شروع کردی – انکی تحریک کے اھم مقاصد میں ھندوستان کی آزادی زات پات کا خاتمہ تھا ,,گاندھی جی کو کئی مرتبہ قید وبند سے گزرنا پڑا- دو مرتبہ انہوں نے اکیس اکیس دن کا مرن برت رکھا -1931 میں منعقدہ لندن گول میز کانفرنس میں کانگریس کے نمائندے کی حیثیت سے شرکت کی.

گاندھی جی کی کوشش تھی کہ ھندوستان کی تقسیم نہ ھو یعنی پاکستا نہ بنے لیکن پاکستان کا قیام عمل میں آگیا – انہوں نے اس حقیقت کو تسلیم کیا اور پھر فسادات کی زد میں آے لوگوں کی مدد پر کمر بستہ ھوگئے ان کے کہنے پر ھی حکومت ھند نے پاکستان کو پچپن کروڑ ادا کردئیے یہ رقم پاکستان کو متحدہ ھندوستان کے اثاثے میں سے واجب الادا تھی ,مسمانوں اور پاکستان سے ھمدردی کا اظہار کرنے پر لوگ انہیں ھندوستان کی تقسیم کاذمہ دار سمجھنے لگے-20 جنوری 1948 کو گاندھی جی کے خلاف نفرت کا پہلا اشارہ اسوقت ملا جب برلا ھاوس سے کچھ فاصلے پر اسوقت ایک بم پھینکا گیا جب وہ پرارتھنا سبھا میں تقریر کر رھے تھے ,انہوں نے بم پھینکنے والے کو ایک بہکا ھوا نوجوان کہ کر پولیس کو ھدائت کی اسے پریشان نہ کرے ایک پنجابی مدن لال گرفتار ھوا وہ اسی گروہ کارکن تھا جس نےگاندھی جی کو مارنے کی سازش کی تھی ,مدن لال کے ناکام رھنے پر پونا کا ایک نوجوان صحافی ناتھورام گوڈ سے دلی آیا اور وہ پستول جیب میں ڈالے برلا ھاوس کے گرد منڈلاتا رھتا – سازش کی بو پاکر حکام نے نگہداشت میں اضافہ کردیا گاندھی جی نے اس بات کی اجازت نہ دی کہ پولیس پرارتھنامیں آنے والوں کی تلاشی لے – ان کا کہنا تھا کہ اگر مجھے مرناھی ھے توپھر مجھے پرارتھنا سبھا میں ھی مرنا چاھئے.

30 جنوری کی شام وہ برلا ھاوس میںواقع اپنے کمرے سے نکل کر پرارتھنا سبھا میدان کی طرف چلے راستہ صرف دومنٹ کاتھا لیکن اس دن سردار پٹیل سے باتیں کرنے کی وجہ سے کچھ دیر ھوگئی وہ اپنی پوتیوں آرا اور منو جنکو وہ اپنی چہل قدمی کی چھڑیاں کہتے تھے کے کندھوں پر ھاتھ رکھے سبھا کی طرف آرھے تھے پرارتھنا کے پنڈال میں لوگوں نے ان کے لئے راستہ بنایا بہت سے لوگ اٹھ کھڑے ھوئےکچھ تعظیم میں جھک گئے گاندھی جی نے ھاتھ جوڑ کر نمسکار کیا ,,ٹھیک اسی وقت گوڈسے مجمع کے کنارے آگے بڑھا اور اس طرح جھکا جیسے وہ گاندھی جی کے چرن چھونا چاھتا ھے – پھر اس نے جیب سے پستول نکال کر اوپر تلے تین فائر کردئیے گاندھی جی تیورا کر زمین پر گر پڑے – ان کے منہ سے بے اختیار نکلا – ھےرام- گولیوں نے سینہ چھید ڈالا……..

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے