روسو……. عظیم فلسفی…

ژاں ژاک روسو اھل فرانس کو عظیم الشان انقلاب کے لئے تیار کرنے والا – روسو 28 جون 1712 کوجنیوامیں پیدا ھوا- اس کے خاندان کے اکثر افراد گھڑی ساز تھے ان کا تعلق جنیوا شہر کے پانچ طبقوں میں سے درمیانے طبقے سے تھا اس طبقے کو شہری حقوق حاصل تھے – روسو نے آزادی پسندی ,بےچینی اور تلون مزاجی اور جذبات پرستی اپنے باپ سے لی – اسکی مکتب کی تعلیم واجبی سی تھی لیکن مطالعہ کا شوق بچپن سے تھا جس نے اسکی مسلسل ذھنی آبیاری کی –
نوعمری میں روسو جنیوا سے نکلا اور پھر یورپ کے مختلف شہروں میں بھٹکتا رھا ,پیرس میں 1745 میں اسکی ملاقات تریزے نام کی خاتون سے ھوگئی اور پھر کچھ عرصہ بعد انہوں نے شادی کرلی – ان کے ھاں پانچ بچے ھوئے لیکن ان سب کو یتیم خانہ میں داخل کرادیا گیا -1749 میں روسو نے پہلا مقالہ لکھا – اسکا مرکزی خیال تھا علوم وفنون کی ترقی نے اخلاق وآداب تباہ کردئیے ھیں ,پیرس اکادمی نے روسو کو اس مقالہ پر انعام دیا ,اس سے پہلے 1753 میں بھی اکادمی نے مقالہ نگاری کے ایک اور انعامی مقابلے کا اعلان کیا روسو نے حصہ لیا لیکن انعام نہ ملا –

1760 میں اسکا ناول ,,نویل ایلواز,,شائع ھوا – اسکے شائع ھوتے ھی روسو کی شہرت آسمان کی بلندیوں سے باتیں کرنے لگی-1762 میں چند د نوں کے وقفہ کے بعد یکے بعد دیگرےدو اور کتابیں شائع ھوئ – یہ دونوں کتابیں شاھکار مانی جاتی ھیں ,پہلی کتاب معاھدہ عمرانی اور دوسری ایمیل ھے – آج اٹھارویں صدی کے اس فلسفی کا نام زیادہ تر انہی دو کتابوں کی وجہ سے زندہ ھے.

جنوری 1766 میں روسو لندن پہنچا شہر کے لوگوں نے خوشی سے اسکا استقبال کیا – لیکن لندن میں دوستانہ استقبال کے باوجود روسو پہلے ھی دن اس شہر سے بےزار ھوگیا وہ مالیخولیا کا شکار ھوگیا ,نومبر 1766 کی رات وہ فرانس واپس پہنچ گیا ,روسو نے انگلستان میں دس ماہ گزارے وہ اس کے اچھے دن نہ تھے وہ ذھنی سکون اور نیند دونوں سے محروم ھو چکا تھا اس کیفیت نے اس نے اپنے حالات زندگی لکھنے شروع کئے جو,,اعترافات, کے نام سے شائع ھوے اس تحریر کے بعد اس نے مکالمات پر کام شروع کیا جو اسکی سوانح عمری کا حصہ بنے ,
ژاں ژاک روسو اٹھارویں صدی کا نمائندہ فلسفی اور ادیب تھا اسکی تصانیف نے اھل فرانس کو آزادی کی اھمیت کا احساس دلایا زوال پزیر جاگیردارانہ ,سیاسی نظام اور سماجی نظام کو تبدیل کرنے کی ترغیب دی بہت سے ناقدین تسلیم کرتے ھیں کہ روسو نے عوام کو انقلاب فرانس کیلئے دوسروں سے زیادہ تخلیقی تحریک دی – روسو کے نظریے کی رو سے ھر وہ حکومت ناجائز ھے جو آمرانہ اور عوام کی مرضی کے بغیر وجود میں آئے.

زندگی کے آخری دنوں میں فرانس کا یہ عظیم فلسفی تنہای کا شکار تھا کم وبیش سبھی دوستوں سے اس کے رابطے ٹوٹ چکے تھے لوگ اس کے شکی مزاج اور جھگڑالو پن کے سبب اس سے دور رھنے لگے ,تنہای اور پریشانی کے ان دنوں میں بھی روسو نے لمبی لمبی سیریں جاری رکھیں آخری دن اس نے پیرس کے مضافاتی قصبے میں گزارے -قصبے میں آنے کے چند روز بعد روسو کے وھم شدید ھونے لگے وہ محسوس کرتا تھا کہ اسے بندی خانے میں ڈال دیا گیا ھے.

2 جولای 1778 کو اچانک سب کچھ ختم ھوگیا فلسفی جان کی بازی ھار گیا موت سبب کیا تھا یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا ڈاکٹرز کہتے ھیں موت دماغ کی شریان پھٹنے سے ھوی وہ سیر سے لوٹا تو طبعیت ٹھیک نہ تھی اس نے سردرد کی شکائت کی اور پھر اچانک ھی ڈھیر ھوگیا.
ماخوذ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے