اسلام:ضابطہ حیات،مولانامودودی اورقائداعظم

وجاہت مسعود صاحب نے دعوی کیا ہے کہ اسلام کے بطور ضابطہ حیات کی اصطلاح مسلم تاریخ میں سب سے پہلے مولانا مودودی نے استعمال کی۔ یہ دعوی بذات خود ان معنوں میں لغو ہے کہ قرآن جب ” الیوم اکملت لکم دینکم” یعنی کامل دین کی بات کہتا ہے یا ”ان الدین عند اللہ الاسلام” کے ساتھ اللہ تعالی کی پسندیدگی کی طرف متوجہ کرتا ہے یا ”ھوالذی ارسل رسولہ بالہدی و دین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ” کے ذریعے اسلام کے غلبے کی بات کرتا ہے تو اصلا اس میں اردو اصطلاح کے مطابق ایک ظابطہ حیات اور انفرادی و اجتماعی نظام زندگی ہی مراد ہوتا ہے جسے مسلمان نے اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں لاگو کرنا ہے اور جسے اس نے باقی نظام ہائے حیات پر غالب کرنا ہے۔

مگر کیا مسلم تاریخ میں یہ اصطلاح مولانا مودودی نے ہی استعمال کی ہے اور اس باب میں وہ اکیلے ہیں جیسا کہ وجاہت صاحب نے دعوی کیا ہے؟ تو اس کا جواب نفی میں ہے۔ خیال تھا کہ اس پر مطالعہ کیا جائے اور محدثین و مفسرین، فقہائے کرام اور معاصر اسلامی تحریکوں کے قائدین کی کتب میں تلاش کیا جائے کہ کس کس نے یہ اصطلاح پہلے استعمال کی ہے مگر اس موقع پر قدرت مدد کو آئی۔ ہوا یوں کہ انڈیا سے ایک بزرگ آئے ہوئے ہیں، ان کے لیے کچھ کتب کی خریداری کے لیے کل اردو بازار جانا ہوا تو خیال آیا کہ موجودہ بحث کے تناظر میں کچھ اپنے لیے بھی کتب کی خریداری کر لی جائے۔ کتابیں دیکھ رہا تھا کہ پاکستان کے معروف سفارت کار اکبر ایس احمد کی کتاب پر نظر پڑ گئی۔ یاد رہے کہ انھوں نے نہ صرف قائداعظم محمد علی جناح پر کتب لکھی ہیں بلکہ ان پر ” جناح ” نامی واحد فیچر فلم اور ایک دستاویزی فلم بھی انھی کی بنائی ہوئی ہے۔ ” جناح : پاکستان اور اسلامی تشخص ، تاریخی سیاسی اور معاشرتی تجزیہ ” نامی اس کتاب کو جونہی کھولا تو سامنے وہ صفحہ آیا جس سے ساری مشکل آسان ہو گئی۔ لگا جیسے قدرت خود کھینچ کر لائی ہو اور صفحہ کھول کر سامنے رکھ دیا ہو ۔

کسی مفسر ، محدث اور فیقہ یا کسی اسلامسٹ کی بات شاید وجاہت صاحب اور ان کے قبیلے کے لیے قابل قبول نہ ہو، مگر وہ قائداعظم کے خاصے مداح معلوم ہوتے ہیں۔ اگر قائداعظم کی زبانی ان کے دعوے کا ابطال ہو جائے تو کیا کہنے۔

تو لیجیے قائداعظم کے الفاظ آپ بھی ملاحظہ کیجیے

” ہمیں لیگ کے چاند اور تارے والے پرچم کے علاوہ کوئی پرچم نہیں چاہیے۔ اسلام ہی ہمارا رہنما ہے اور مکمل ضابطہ حیات۔ ہمیں سرخ اور زرد جھنڈے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں کوئی ازم نہیں چاہیے، نہ سوشلزم ، نہ کمیونزم نہ نیشنلزم” یہ 1944 کی گفتگو ہے ( جب جماعت اسلامی کو بنے صرف تین سال ہی ہوئے تھے ) اور اس کتاب کے صفحہ 311 پر درج ہے۔ قائداعظم صرف ضابطہ حیات نہیں بلکہ مکمل ضابطہ حیات ہونے کی بات کہہ رہے ہیں بلکہ اس کے ساتھ وجاہت صاحب کے تمام پسندیدہ ازموں (جن کے وہ پرچارک تھے یا ہیں) کی بھی کھلے لفظوں میں نفی کر رہے ہیں۔ اب کوئی بندہ پوچھے کہ قائد نے جن ازموں کی نفی کی تھی، ان کے ہر اول کے سپاہی آپ کیسے ہو گئے۔

مذکورہ کتاب کا جستہ جستہ مطالعہ کیا تو ایک اور حیرت انگیز بات سامنے آئی کہ قائداعظم صرف برصغیر میں مسلم تشخص کے داعی نہیں تھے بلکہ اپنے آخری سالوں میں انھوں نے عالمگیر اسلام کی باتیں کرنا شروع کر دی تھیں، فلسطین سے لے کر انڈونیشیا تک جاری مشترکہ جدوجہد کی باتیں۔ (ص 303) 27 اگست 1948 کو قوم کے نام عید کے پیغام میں پاکستان کو بین الاقوامی اسلام کا حصہ قرار دیتے ہوئے قائداعظم نے کہا ” برادر اسلامی مملکتوں کے نام میرا پیغام دوستی اور نیک تمنائوں کا ہے۔ ہم سب بڑے خطرناک دور سے گزر رہے ہیں۔ پاور پالیٹکس کا جو ڈرامہ فلسطین انڈونیشیا اور کشمیر میں کھیلا جا رہا ہے، اس سے ہماری آنکھیں کھل جانی چاہییں۔ ہم صرف متحدہ محاذ بنا کر ہی عالمی سطح پر اپنی آواز کو متاثر بنا سکتے ہیں۔ (ص 313)

یہ کتاب مزید کئی حوالوں سے دلچسپ ہے مثال کے طور پر اس میں کہا گیا ہے کہ جماعت اسلامی قائداعظم کو اپنا ہیرو مانتی ہے اور یہ ایسے فرد کی طرف سے کہا گیا ہے جس کا جماعت سے دورپار کا واسطہ نہیں ہے مگر اس کا تذکرہ پھر سہی، برصغیر میں اسلامی نظام حیات کی اصطلاح کے استعمال کے تناظر کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس کا ایک قومی تناظر ہے جس میں قائداعظم نے اس اصطلاح کا استعمال کیا ہے اور ایک دینی تناظر ہے جس میں مولانا مودودی اس کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ اسلام کے ظہور کے بعد چونکہ مسلمانوں نے صدیوں دنیا پر حکومت کی ہے، اس لیے دینی و قومی تناظر میں اس پر کبھی اشکال ہوا نہ اصطلاحا اس پر زیادہ بات کرنے کی ضرورت پیش آئی کہ یہ ایک مسلمہ چیز تھی۔ جب استعماری قوتوں نے مسلم دنیا پر قبضہ کر لیا اور مسلمان حکومت اور دین دونوں سے صحیح معنوں میں واقف نہ رہے اور اسلام کو چند عبادات کا مجموعہ سمجھ لیا گیا تو جا بجا آزادی کی تحریکوں کے تناظر میں یہ سوال اٹھایا جانے لگا کہ کیا صدیاں گزرنے کے بعد بھی اسلام قابل عمل ہے اور فرد اور ریاست کے معاملات میں یکساں طور پر رہنمائی کر سکتا ہے؟ تو مسلم رہنمائوں نے سیاسی اور نظریاتی دائرے میں اس کا جواب دیا۔ قائداعظم اور مولانا مودودی اس کی مثالیں ہیں۔ دوسرے مسلم خطوں میں بھی ایسی مثالیں سامنے آئیں۔

اس تناظر میں مولانا مودودی کا اعجاز یہ ہے کہ انھوں نے اردو زبان میں یک لفظی اصطلاحات، ترجمے، تشریح کے ساتھ الفاظ و معانی کے دریا کو کوزے میں بند کر دیا، جیسا کہ سیکولرزم کا ترجمہ لادینیت، آج تک سیکولر طبقہ تشریح و وضاحت کرکے تھک گیا، سواد اعظم اس کا وہی ترجمہ کرتا اور سمجھتا ہے جیسا کہ مولانا مودودی نے کیا ہے اور اب خود اس طبقے سے صدا بلند ہونے لگی ہے کہ سیکولر یا لبرل ہونا تو معاشرے میں گالی بن گیا ہے، اس لیے نئی اصطلاحات کے ذریعے بات کی جائے۔ اسلامی نظام حیات ، اسلامی ضابطہ حیات اسی طرح کی اصطلاحات میں سے ایک ہے جس کو پڑھتے ہی ایک پورا مفہوم آپ کے ذہن میں آ جاتا ہے کہ اسلام دین و دنیا ہر دو جہانوں کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے، اور دنیا میں یہ جیسے فرد کی زندگی کے لیے ضروری ہے، اسی طرح معاشرے اور نظام حکومت کے لیے بھی، یہ جیسے عبادات کا ایک نظام رکھتا ہے اور فرد کی رہنمائی کرتا ہے، اسی طرح معاشرے اور اجتماعیت، اور ریاست و نظام حکومت کے لیے بھی اپنے اصول اور ضابطے رکھتا ہے، مولانا کا لٹریچر اس کی مکمل تشریح ہے۔ وقت ہو تو مطالعہ کیجیے ، ان کا پورا مدعا سمجھ آ جائے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے