سیاسی چھتری تلے دہشت گردی

کچہ رازی کے صحرا اور گھنے جنگل میں چھپے چھوٹو گینگ کے خلاف گذشتہ کئی دنوں سے آپریشن جاری ہے مگر پنجاب پولیس نے مسلسل ہزیمت اٹھانے کے بعد بالآخر یہ آپریشن بھی فوج کے حوالے کردیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق اس آپریشن کے آغاز سے قبل پاک آرمی نے یہ آپریشن خود کرنے کی اجازت صوبائی حکومت سے طلب کی تھی مگر حکومت پنجاب نے سول بالادستی کی بحالی کے لیے یہ آپریشن خود کرنے کا فیصلہ کیا۔ پنجاب حکومت نے یہ آپریشن خود کرنے کا فیصلہ کیوں کیا اسکی وجہ بظاہر یہ معلوم ہوتی ہے کہ حکومت پنجاب یہ آپریشن فوج یا رینجرز کے حوالے کر کے اپنے وزیروں، مشیروں اور پارلے منٹ کے ممبران کو ڈاکٹر عاصم بننے سے بچانا چاہتی تھی۔ کون نہیں جانتا کہ کچے میں چھپے ان ڈاکووں، اغواکاروں، بھتہ خوروں اور دہشت گردوں کے سہولت کار پنجاب کے کئی ایم این اے اور ایم پی اے ہیں۔ کسے یہ پتہ نہیں چلا کہ ان دہشت گردوں کو سیاسی چھتری مسلم لیگ ن کے مزاری،گورچانی، چنڑ اور سردار فراہم کرتے۔ اس وقت بھی یہی لوگ اپنے کارندوں کے ذریعے انہیں معلومات فراہم کرکےآپریشن میں روکاوٹیں کھڑی کررہے ہیں حتی کہ شہید ہونے والے بے گناہ شہریوں اور پولیس اہلکاروں کی میتیں بھی انہی کے ذریعے وصول ہورہی ہیں۔

وزیر اعلیٰ کے حکم پر اس آپریشن کا آغاز کیا گیا مگر انتہائی غلط حکمت عملی کے ساتھ۔ جس کے نتیجہ میں اب تک متعدد اہل کارشہید ہوچکے ہیں اور پچیس اہل کار یرغمال بنے ہوئے ہیں۔ تین دن آئی جی پنجاب پچھلے مورچوں پر بیٹھے رہے اور آپریشن کی کامیابی کے لیے دعائیں کرتے رہے مگر آپریشن محض دعاوں سے نہیں بہتر حکمت عملی سے کامیاب ہوتے ہیں۔ جس جگہ آپریشن جاری ہے وہاں چاروں طرف پانی ہے، درمیان میں یہ جزیرہ واقع ہے، اوپر سورج کی تپش ہے اور نیچے گرم ریت۔ پھر فورسز کے لیے کھانے پینے کے انتظامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ایسے حالات میں جن پولیس اہلکاروں نے اس آپریشن میں وقت گزارا ہے وہ قابل داد ہیں۔ پنجاب حکومت کو چاہیے تھا کہ اس آپریشن کے لیے ملک بھر میں موجود پولیس مقابلوں کے نام نہاد ماہرین کو بھیجا جاتا تاکہ یہ کہانی بھی جلد اپنے انجام کو پہنچ جاتی۔ اب بھی ضرورت ہے کہ تمام رشوت خوراہلکاروں، تمام سیاسی سفارش پر بھرتی ہونے والوں اور لمبی توندیں لٹکائے پھرنے والے افسروں کو اس آپریشن میں جھونکا جائے تاکہ پولیس فورس بھی شفاف ہوسکے اور کچے کے دہشت گرد بھی اپنے انجام کو پہنچ سکیں۔

اب یہ آپریشن فوج کے حوالے کیے جانے کی اطلاعات ہیں مگر جب تک انہیں مکمل اختیارات نہیں دیے جائیں گے یہ آپریشن کامیاب نہیں ہوگا کیونکہ دریائے سندھ کے کنارے واقع ان تمام علاقوں میں ایسے بھتہ خور، اغوا کار اور دہشت گرد موجود ہیں اور ان سب کو سیاسی چھتری بھی حاصل ہے۔ یہ اب کروڑوں کا نہیں اربوں کاکاروبار بن چکا ہے بلکہ علاقے کے شریف شہریوں اور قانون پسندوں پر اپنی سیاسی دھاک بٹھانے کا ظالمانہ طریقہ بھی۔ جوکوئی شریف شہری اور قانون پسند ان کے مقابل کھڑا ہوتا یا انہیں للکارتا ہے تو اس کا حشر بہاولپور کے معروف سیاسی کارکن راو جاوید اقبال جیسا کیا جاتا ہے۔ ان پر بے بنیاد مقدمات ڈالے جاتے ہیں، بلاوجہ نظر بند کیا جاتا ہے اور اس سب کام میں پولیس کے اعلی عہدیدار تک سبھی استعمال ہوتے ہیں۔ آئی جی پنجاب سے شکایت کی جائے تو وہ ایک قانون پسند شہری کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں جبکہ صوبائی وزیراقبال چنڑ جیسے لوگوں کو امن پسند جوکہ ان ڈاکوؤں کے سہولت کار بھی ہیں اور ناجائز زمیوں پر قابض بھی۔ جس کسی کی زمین پر قبضہ نہ کرسکیں تو اس کے خلاف پولیس کارروائی کرواتے ہیں اور دہشت گردی کے مقدمات میں ملوث کروا کر اسے فورتھ شیڈول کا پابند کرتے ہیں۔ ڈی پی او فلکی جو ایسے ہی سارے کارنامے پہلے بھکر میں نوانیوں کے کہنے پر سرانجام دیتے رہے اب صوبائی وزیر اقبال چنڑ کے کہنے پر انجام دے رہے ہیں۔

اگر یہ آپریشن افواج پاکستان کے سپرد کیا جارہا ہے تو پھرانہیں مکمل اختیارات کے ساتھ یہ آپریشن کرنے دیا جائے اور قوم کے سامنے یہ لانے دیا جائے کہ یہاں کتنے ڈاکٹر عاصم موجود ہیں جو دہشت گردوں کو نہ صرف پناہ گاہیں فراہم کرتے ہیں بلکہ اپنے دشمنوں کا صفایا بھی انہیں لوگوں سے کرواتے ہیں۔ اب تو دریائی پٹی پر موجود ان دہشت گردوں سے ملک دشمن ایجنسیاں ہاتھ ملا چکی ہیں اور اپنے لوگ ان کے درمیان چھوڑ چکی ہیں۔ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ اگر فوج آپریشن کرے اور بلاتفریق کرے تو یہاں سے کئی پڑوسی اور برادرملکوں کے جاسوس پکڑےجائیں گے اور کئی سیاست دانوں کے سیاہ چہرے سامنے آئیں گے۔

اس بات کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے کہ پولیس آپریشن سے سامنے آنے والے نتائج محض غلط حکمت عملی کانتیجہ ہیں یا اس کے پس پردہ کوئی اور عوامل ہیں۔ آخر کیوں پولیس فورس کو ناکافی وسائل اور غلط معلومات کی بنیاد پر آپریشن میں دھکیلاگیا۔ کہیں یہ آپریش شروع کرنے کا مقصد اپنے پسندیدہ گروہوں کو چوکنا کرکے انہیں دوسری پناہ گاہوں کی طرف دھکیلنے کا منصوبہ تو نہیں تھا۔ پولیس فورس پر سالانہ اربوں روپے خرچ ہونے اور انہیں تربیت سے آراستہ ہونے کے دعوے کہاں گئے۔ کیا یہی جدید تربیت ہے؟ ہماری پولیس ترکی اور ایران کے ساتھ مل کریہی کچھ سیکھ رہی ہے۔ کیا اس پولیس نے صرف نہتوں اور ہتھکڑیاں لگے لوگوں پر ہی گولیاں چلانی سیکھی ہیں؟ کیا یہ پولیس صرف مذہب پسندوں کے ہی مقابلے( جعلی) کرسکتی ہے۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ پنجاب پولیس کو اس حال تک کس نے پہنچایا ہے اور اس کے ذمہ دار آئی جی پنجاب ہیں یا خادم پنج

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے