جامعہ کراچی میں رینجرزکاچھاپہ،5 ملازمین زیرِحراست

کراچی: جامعہ کراچی میں ہونے والی تقریبِ تقسیم اسناد کی ریہرسل کے دوران رینجرز نے ایڈمن بلاک پر چھاپہ مار کر جامعہ کے 5 ملازمین کو حراست میں لے لیا۔

ذرائع کے مطابق حراست میں لیے گئے غیر تدریسی عملے کا تعلق متحدہ قومی موومنٹ(ایم کیو ایم) اوراس کی طلبہ تنظیم آل پاکستان متحدہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (اے پی ایم ایس او) سے ہے۔

حراست میں لیے گئے افراد میں اکاونٹس افسر زوہیب، اکاؤنٹنٹ ریحان، آڈٹ افسر نوید صدیقی اور جونیئر اکاؤنٹس کلرک ذیشان امین شامل ہیں۔

یہ تمام افراد چھاپے کے دوران ایک ہی عمارت میں موجود تھے۔

صبح ساڑھے گیارہ بجے رینجرز کے نقاب پوش اہلکاروں نے ایڈمن بلاک کی دونوں عمارتوں ایک گھنٹے تک محاصرہ جاری رکھا بعد ازاں ان افراد کی گرفتاری کے بعد واپس لوٹ گئے۔

جامعہ کراچی کے ایک ملازم نے اس حوالے سے بتایا کہ ‘عمارت کے سارے دروازے بند کر دیئے گئے تھے، کسی کو بھی عمارت سے باہر جانے یا اندر آنے کی اجازت نہیں تھی، نقاب پوش اہلکاروں نے ان ملازمین کی نشاندہی کی، جن کو حراست میں لے لیا گیا’۔

یونیورسٹی کیمپس میں یہ افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں کہ ان گرفتاریوں کا تعلق 3 دن قبل قانون نافذ کرنے والےادارں کی جانب سے جامعہ کے اسسٹنٹ رجسٹرار کو حراست میں لیے جانے سے ہے اور یہ بھی کہ ان ملازمین کے بارے میں معلومات بھی انہوں نے ہی فراہم کی ہیں۔

قیاس آرائیاں یہ بھی ہیں کہ حراست میں لیے گئے ملازمین میں سے کچھ افراد کے ایم کیو ایم کے سینیئر رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کیس کے اہم ملزم محسن علی کے ساتھ تعلقات تھے۔

جب جامعہ کراچی کے سیکیورٹی ایڈوائزر خالد عراقی سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ‘میں نے آپریشن کے دوران جب کیمپس میں موجود رینجرز کے ونگ کمانڈر سے رابطہ کیا تو انہوں نے اس آپریشن سے لاعلمی کا اظہار کیا’۔

خالد عراقی کا مزید کہنا تھا کہ ‘رینجرز اہلکار کوئی دستاویز لے کر نہیں گئے، جس سے اس بات کی عکاسی ہوتی ہے کہ رینجرز ان مخصوص افراد کو ہی گرفتار کرنے آئی تھی، امید ہے کہ پیر تک ملازمین کو چھوڑ دیا جائے گا یا عدالت میں پیش کردیا جائے گا۔’

ایک سوال کے جواب میں خالد عراقی کا کہنا تھا کہ ایڈمن بلاک پر یہ رینجرز کا پہلا چھاپہ ہے، اس سے قبل 5 سے 6 ماہ قبل غیر تدریسی عملے کے ملازم ذیشان امین کو جامعہ کے رہائشی علاقے سے گرفتار کیا گیا تھا، جسے بعدازاں رہا کردیا گیا تھا۔

سیکیورٹی ایڈوائزر نے بتایا کہ اسسٹنٹ رجسٹرار شہزاد عبداللہ کی عدم موجودگی کی بھی تصدیق کی اور کہا کہ ‘ان کے خاندان نے ابھی تک ہم سے کوئی رابطہ نہیں کیا، ہم نے خود اخبار میں پڑھا تھا کہ انہیں 3 دن قبل گلستانِ جوہر سے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے تحویل میں لیا’۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے