عوام کو دھوکا دینے کی روایت

گزشتہ ایک عشرے سے ملک میں نیا سلسلہ چل پڑا ہے کہ حکمرانوں پر جب بھی مشکل حالات آئے یا ان کی حکومتوں پر کڑا وقت آیا تو دیگر مکاریوں کے علاوہ ایک مکاری یہ کی جاتی ہے کہ عوام سے ہمدردی کے حصول اور رائے عامہ کو اپنی جانب متوجہ کرانے کے لئے پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا پر دھڑا دھڑ اشتہارت چلوائے جاتے ہیں، جن میں نام نہاد حکومتی حسن کار کردگی ، مبینہ فلاحی ورفاہ عامہ کے منصوبوں کی تفصیل کو بڑھا چڑھا کرپیش کیاجاتا ہے، اور یہ بتانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ارباب اقتدار کے دل و دماغ میں ملک و قوم سے اتنی محبت وعقیدت ہے کہ ان کودل کا دورہ اور ڈپریشن اس لئے ہوتی ہے کہ بیچارے آخر ہر وقت بیس کروڑ عوام کےغم میں ہلکان جو رہتے ہیں۔

یہی صورتحال پانامہ لیکس کے انکشافات کے بعد بھی دیکھنے میں آئی کہ وفاقی حکومت نے بڑے ٹی وی چینلز اور اخبارات پر میٹرو بس ،گرین لائن ٹرین سروس اور کچھ دیگر کارناموں کے اشتہارات چلوانے شروع کئے تاکہ کردہ و ناکردہ گناہوں و کوتاہیوں پر پردہ ڈالا جاسکے اورعوام کو باور کرایا جاسکے کہ انتخابات سے قبل ان سے کئے گئے وعدوں پرحکمران سنجیدہ اوراس کی تکمیل کے لئے ہرجتن کئے جارہے ہیں لیکن اپوزیشن (عمران خان گزشتہ تین سالوں میں حقیقی اپوزیشن کا کردار تحریک انصاف ہی ادا کر رہی ہے, باقی تو مفاہمت کے نام پرمک مکا ہی چل رہاہے ) کام نہیں کرنے دے رہے ہیں ، دوسری طرف پیپلزپارٹی بھی پاناما کے انکشافات کے بعد نہ صرف موقع کی تلاش میں ہے بلکہ اپنا داغدار دامن میڈیا کی توپوں کے رخ سے بچانے کی تگ و دو میں ہے ،یہی وجہ ہے کہ سندھ حکومت بھی من پسند اخبارات کو فل پیج اور ہاف پیج اشتہارات سے نوازرہی ہے۔

مسلم لیگ (ن) نے تین سالہ دوراقتدار میں 7 ارب 86 کروڑکے اشتہارات جاری کئے، پرنٹ میڈیا کو5ارب 72 کروڑ اور الیکٹرونک میڈیا پر 2ارب 14 کروڑ خرچ کئے گئے ، تین سالہ دورحکومت میں اشتہارات پرضائع کی گئی اس مجموعی رقم کو اگر ماہانہ بنیادوں پرتقسیم کیاجائے تویہ 23 کروڑ13 لاکھ ایک ماہ کی بنتی ہے ، یہ ساری رقم عوام کے ٹیکسوں سے بننے والے قومی خزانے سے ہی خرچ کی گئی ۔ یہ انکشافات وفاقی وزیراطلاعات پرویزرشید نے گزشتہ روز قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے مرادسعید کے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کئے ۔
آج کل ایک سوال زبان زدعام ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی دونوں نے تین تین بار وفاقی حکومت سنبھالی جبکہ چار اور پانچ بار صوبائی حکومت کے مسندوں پر براجمان رہیں ، تقریبا30برس زمام اقتدار ہاتھ میں رہنے کے باوجود نوازشریف اور زرداری صاحب کی جماعتیں نہ ایسا ہسپتال بناسکیں جہاں ان کا اور ان کے اہل خانہ کا مکمل علاج ہوسکے ، نہ ایسا تعلیمی ادارہ بناسکے جہاں ان کے بچے پڑھ سکیں ،کیا کسی سیاسی قیادت یا ان کے کسی ترجمان کے پاس عوام الناس کے ذہنوں میں پھلنے والے اس سوال کاجواب ہے ؟ یا کم ازکم اس سوال کا اتنا سا جواب ہی دے سکے کہ عوام کے دل کو اطمینان حاصل ہوسکے۔

ویسے مسند اختیار پرکسی بھی حیثیت سے براجمان سیاسی ومذہبی رہنمائووں کے بچے بچیاں بیرون ملک ، بچوں بچیوں کی تعلیم بیرون ملک ، زچگیاں بیرون ملک ، کام کاج اورکاروباربیرون ملک ، سارے کھاتے و کل اثاثے بیرون ملک ، عیاشیاں بیرون ملک ، سیرسپاٹےبیرون ملک ، پھر علاج بیرون ملک ہوتا ہے جبکہ آخرمیں صرف مزار ہی اندرون ملک بنتا ہے ،

ہم پاکستانیوں کے کرتوتوں کی وجہ سے ہی وطن عزیز کو آج تک ملک وملت سے مخلص قیادت نہ مل سکی ، اور اگرہماری یہی روش رہی تومخلص قیادت کاخواب کبھی بھی شرمندہ تعبیرنہ ہوسکے گا ۔ میرے سامنے جب کوئی بڑھی عمرکا آدمی پاکستان کی برائیاں یا ملک کے مستقبل کے حوالے سے مایوسی والی باتیں کرتا ہے تومجھے بہت دکھ ہوتاہے اور اگر وہ فرد کسی سرکاری محکمے کا رٹائرڈ اہلکار ہو تو پھر دکھ کے ساتھ اس پرشدید غصہ بھی آتا ہے ، جس کا اظہار ان صاحب کو مخاطب کرکے یوں کرتا ہوں ’’ اگر آپ لوگوں نے اپنا کام دیانتداری وایمانداری اور ملک وقوم سے مخلص ہو کر کیا ہوتا تو آج ہمیں یہ دن دیکھنا نہیں پڑتا ‘‘ ۔ بحیثیت قوم ہمیں اپنے گفتار کے ساتھ کردار پر بھی سوچنا ہوگا ورنہ تو جس طرح آج ہم ملک وملت کے بہترمستقبل کے خواب دیکھ رہے ہیں ، کہیں آنے والی نسلیں بھی خواب ہی نہ دیکھتی دہ جائیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے