اصل مسئلہ چھوٹو نہیں بلکہ موٹو گینگ ہے

چھوٹو گینگ سے میری ملاقات دو سال پہلے ہوئی،ملاقات کی کہانی سے پہلے تھوڑا اس مسئلہ کی سنگینی کو سمجھیں یہ کوئی ایکشن فلم نہیں کہ پولیس کی ناکامی کے بعد اصل ہیرو فوج کی شکل میں آکر ولن کو ٹھکانے لگا دےگا ،، دراصل دریائے سندھ کے دونوں اطراف کا علاقہ کچہ کہلاتا ہے۔ صرف راجن پور ہی نہیں کچہ کا علاقہ جس ضلع میں بھی ہے چاہے وہ بھکر ،کروڑ، لیہ، ڈیرہ غازی خان ہو، یہاں پر زیادہ تر ڈکیت اورجرائم پیشہ افراد ہی رہتےہیں، مگرراجن پورکوخاص اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہ پنجاب کا آخری ضلع ہے اور اس کی سرحدیں سندھ کے ساتھ ضلع کشمور ہے جوکہ دو ہزار چار تک بلوچستان کا حصہ تھا ، جبکہ کشمورکی سرحد سوئی سے ملتی ہے اور ڈیرہ بگٹی یہاں سے زیادہ فاصلہ پر نہیں ہے۔ جس وجہ سے اطلاعات تھیں کہ ڈکیتوں کیساتھ بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں سرگرم کچھ ملک دشمن عناصربھی یہاں موجود ہیں،،،،

یہ معمولی بات نہیں ہے کیونکہ ڈکیتی،رازنی،قتل، رسہ گیری یہ کچہ میں موجود مختلف افرادکاپیشہ ہے جن کو ہم ڈاکو کہتے ہیں مگریہ لوگ ملک سےغدارنہیں ہیں اسی لئے فوج کے آتے ہی چالیس افراد نے ہتھیار بھی ڈال دیے۔ آپ کہیں گے کہ یہ کیا بات ہوئی ڈاکو ہوں اورملک دشمن نہ ہو؟؟؟ پاکستان میں آنے والے دو بڑے سیلاب مجھے کچہ کے علاقہ میں لے گئے۔ میں نے خود ڈاکو "حضرات” کو سیلاب زدہ افراد کی مدد کرتے دیکھا ہے۔ایسے افراد جو کہ اشتہاری تھے وہ دریا میں ڈبکی لگا کر لوگوں کے جانور سیلابی پانی سے باہرنکال لاتے، یہ لوگ زمین پر چلنے سے زیادہ پانی میں تیرنا جانتے ہیں،، میں نے دوہزار گیارہ میں دریائے سندھ کے کنارے آباد بچڑی خاندان کو لوگوں کی مدد کرتے دیکھا ہے جن کے خاندان کے آدھے سے زیادہ لوگ پولیس کو قتل جیسے نہایت سنگین مقدمات میں مطلوب ہیں،،،،

کشمور، کندھ کوٹ سکھر، شکارپور، ٹوری بند سے منسلک کچہ کا علاقہ دیکھا،،یہاں پر ہر شخص کے پاس جدید ترین اسلحہ تھا،،، چاہے وہ چائے والا ہو یا کوئی وڈیرہ جن میں مارٹر اور راکٹ لانچر بھی شامل تھے، اکثر افراد سے مل کر جب ہم جانے لگتے تو معلوم ہوتا کہ بھائی صاحب بہت مہمان نوازاشتہاری ڈاکو تھے اور جن ڈکیتوں سے میری ملاقات ہوئی ان میں غلام رسول چھوٹو ڈکیت کے کارندے بھی شامل تھے جو کہ کیمرہ کے سامنے آنے کیلئے تیار نہیں تھے اور اسی میں ہماری عافیت بھی تھی۔اُس وقت مجھے یہ معلوم بھی نہیں تھا کہ کل کویہ گینگ پاکستان کا امریش پوری بننے والا ہے ورنہ ان کے ساتھ خصوصی سیلفی تو واجب بنتی تھی۔

ان افراد کو ملنے کے بعد میرا حوصلہ بڑھتا گیا اور دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ راجن پور روجھان کا وہ علاقہ بھی دیکھوں جو کہ چھوٹو گینگ کا مسکن ہے،کیا وجہ ہے کہ پولیس وہاں جانے سے ڈرتی ہے؟ ڈی پی اوراجن پور کیساتھ ایک کشتی میں بیٹھ کر جب میں سیلاب زدہ علاقہ میں گیا تو انہوں نے ماننے سے انکار کر دیا کہ یہاں اب کوئی گینگ ہے مگر چھوٹو کا ذکر سنتے ہی ان کے چہرے پر اضطراب میں واضح طور پر دیکھ سکتا تھا لہذا میں صرف مسکرا دیا۔ خیرڈی پی او صاحب کیساتھ جاتے تو واپسی کا امکان کم ہی تھا مگر میرے تجسس نے مجھے چین نہیں لینے دیا اور بار بارنگاہیں کچے کے اس علاقہ کی طرف اٹھ جاتیں،،،جہاں اب فوج ان کے خلاف آپریشن کر ہی ہے۔۔۔

میں اپنی ٹیم کیساتھ کم سے کم ایک ہفتہ راجن پور رہا،،،،ہیڈ آفس سے فون آیا کہ ان سیلاب ختم ہو چکا ہے بھائی مہربانی کر کے واپس آجاؤ،واپسی کا سن کر میرا دل ٹوٹ گیا کہ چھوٹو گینگ کا علاقہ قریب جا کر دیکھنے کی حسرت دل میں ہی رہ جائے گی۔۔۔۔ہم واپسی کے لئے نکلے ہم نے رحیم یار خان رکنا تھا کیونکہ براہ راست لاہور پہنچنا ممکن نہیں۔ خیر گدو بیراج پرنو بجے کے خبر نامہ کیلئے آخری لائیو ہٹ دی اور جب ہم آگے جانے لگے تو راستہ بھٹک گئے،،، کافی آگے جا کر سڑک پر کافی اونچے کچی مٹی کے اسپیڈ بریکر آنا شروع ہو گئے جس پر سے جب گاڑ ی گزرتی تو تقریباً رک جاتی تھی میرے ساتھ دو گاڑیاں تھیں ایک ڈی ایس این جی وین اور دوسری کار،،،پچھلی کار سے فون آیا کہ کیا ہم صحیح جا رہے ہیں میں نے انہیں کہا بس پیچھ آتے جاؤ آنے والا ہے رحیم یار خان۔

رات کے تقریباً دس بج رہے تھے مجھے معلوم تھا کہ ہم بھٹک چکے ہیں مگر میں یہ بتا کراپنی ٹیم کو خوفزدہ نہیں کرنا چاہتا تھا،،،عجیب وہشت ناک جگہ تھی دور دور تک کوئی روشنی نہیں تھی نہ ہی کسی جانور یا پرندے کی آواز ایسا لگتا تھا کہ کسی شمشان گھاٹ پر ہم موجود ہوں میں نے گوگل میپ دیکھا تو یہ وہی جگہ تھی جس کے بارے میں مجھے ڈی پی او صاحب نے بتایا تھا کہ یہاں پر چھوٹو گینگ کا گڑھ ہے .اس کے بعد جی پی ایس نے بھی ہمارا ساتھ چھوڑ دیا، موبائل فون کی بیٹری ختم ہو چکی تھی اور اب دوبارہ تھری جی سگنل یہاں ملنا ممکن نہیں تھا، تمام راستےمجھے محسوس ہوتا تھا کہ ایک خاص فاصلہ کے بعد درختوں میں کچھ لوگ موجود ہوتے ہیں جو کہ گاڑی کی لائٹ پڑنے سے پہلے چھپ جاتے ہیں۔ایک بار پھر پچھلی گاڑی سے فون آیا میں نے کہاکہ کیا ہوا میرے ساتھی کیمرہ مین ذیشان یوسف (جو کہ اس وقت بھی نجی ٹیلی ویژن کیساتھ منسلک ہیں) نے گھبرائی ہوئی آواز میں کہا کہ ٹائر پنکچر ہو گیا آگے نہیں جا سکتے،،،،یہ سنتے ہی مجھ پر جیسے بجلی گر گئی ہو.

رات کے اس وقت جنگل میں، اور وہ بھی چھوٹو کے علاقہ میں کار کا ٹائر پنکچر ہو جائے جبکہ ٹیم کو لیڈ بھی آپ کر رہے ہوں تو آپ پر کیا گزرنی چاہئے؟؟؟؟؟میں نے کہا کہ ٹھیک ہےمیں چیک کرتا ہوں ، تم میں سے کوئی نیچے نہیں اترے گا۔ جب میں نیچے اترا مجھے یقین ہوگیا کہ سڑک کنارے درختو ں میں سچ میں کچھ لوگ موجود ہیں جو ہمیں دیکھ رہے ہیں جن کے پاس اسلحہ تو لازمی بات ہے،ہوگا ۔

یہ میرا شک نہیں یقین تھا کہ وہ چھوٹو گینگ کے پہرہ دار ہی تھے میں نے یہ ظاہر کیا کہ مجھے ان کی موجودگی کا علم نہیں ہے،،،،میں نے صرف ڈرائیور کو جس کا نام پرویز تھا گاڑی سے نیچے اتار کر چاروں ٹائر چیک کروائے اور کہا کہ حوصلہ رکھو ٹائرتو ٹھیک ہیں،،، بعد میں معلوم ہوا کہ خوف سے ڈرائیور بھائی کانپ رہے تھے۔ ڈرائیور اور کیمرہ مین کا نام میں اپنی تحریر کی صداقت کیلئے لکھ رہا ہوں کہ میرے صحافی بھائی اس کی تصدیق کر سکیں کہ یہ ایک سچا واقعہ ہے۔

خیر درختوں میں موجود ڈاکو ہماری حرکات کا جائزہ لیتے رہے اور شاید وہ بھی گاڑی پر لگی ڈش دیکھ کر جان چکے تھے کہ یہ میڈیا کے حضرات ہیں ان کے پاس سے انہیں کیا ملے گا اگر اغواء بھی کر لیں تو الٹا انہیں کھلانا پلانا پڑے گا۔

[pullquote]اکثر میڈیا مالکان تو صحافیوں کو ٹائم پر تنخواہ بھی نہیں دیتے ان کا تاوان کس نے بھرنا ،،،[/pullquote]

وہاں کے ڈاکوؤں کو سب خبر ہوتی ہے کہ کون ان کے علاقہ میں کہاں سے آیا ہوا ہے،،،خیر ہم تھوڑا آگے گئے تو ایک شخص ہمیں ویرانے میں سڑک پر نظر آیا،،، میں یہ تو نہیں کہ سکتا کہ وہ بھی کوئی ڈاکو تھا مگر اس ویرانے میں اس شخص کی موجودگی بھی سوالیہ نشان تھی کیونکہ وہاں آبادی کا نام و نشان نہیں تھا اور وہ پیدل تھا،مگر ہمیں مجبوراً رکنا تھا کیونکہ ہمیں راستہ معلوم نہیں تھا۔ ہمارے پوچھنےپر اس نے ہمیں راستہ بتا یا اور کہا کہ آ ئندہ یہاں آنے کی غلطی مت کرنا،،،،اس وحشت زدہ علاقہ کو دیکھ کر یہ بات مجھ پر واضح ہو چکی تھی کہ پولیس زمینی راستہ اختیار کر کے اس گینگ کو کسی صورت قابو نہیں کر سکتی . اکثر مقامات پر رکاوٹیں بنائی گئی ہیں کہ ڈاکو پولیس ریڈ سے پہلے یہاں نکل جائیں،جب کہ پانی کے راستے اگر جایا جائے،،، تو یہ ڈاکو حضرات تو پیدا ہی پانی میں تیرنے کے لئے ہوئے ہیں پانی میں سرکنڈوں کی مدد سے غوطہ لگا کر بھینس کی دم پکڑ کر صوبہ پنجاب سے صوبہ سندھ پہنچ جا نا ان کے لئے کوئی بڑامسئلہ نہیں ہے،،، یہ ایک حقیقت ہے کہ بیچارے پولیس کے جوانوں کو وہاں بھیجنا خودکشی کے مترادف تھا اور وہی ہوا؟

ڈاکوؤں کے اس گینگ کو اس کی جغرافیائی حیثیت کی وجہ سے ملک کے باہر سے بھی مدد ملتی ہے جو لوگ بلوچستان میں کاروائیاں کر رہے ہیں یہ گینگ ان کی محفوظ پناہ گاہ ہے۔تو ایسا کیا مسئلہ کیا تھا کہ آئی جی پنجاب پر کس کا دباؤ تھا کہ انہیں نے ڈی پی او، راجن پور کو مجبور کیا کہ پولیس کاروائی کرے،کیا ہمارے جوانوں کا خون اتنا سستا ہے کہ دریائے سندھ میں بہا دیا جائے؟اس کے پیچھے اصل وجہ چھوٹو نہیں بلکہ موٹو گینگ ہے جس کی جڑیں جنوبی پنجاب میں پھیلی ہوئی ہیں ،،،بعض حکومت مخالف جماعتوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس موٹو گینگ یعنی سہولت کاروں میں حکومتی وزیروں اور ہمدردوں کے نام بھی آتے ہیں،،، اگر وہ پولیس سے یہ ایکشن نہ کرواتے تو فوج کے ہاتھوں چھوٹو گینگ کیساتھ موٹو گینگ بھی رگڑاجاتااور جو دہشت گرد اُس وقت کچہ جمال میں موجود تھے انہیں بھاگنے کا موقع بھی نہ ملتا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے