جمہوریت کے اصل مجرم

وطن عزیز کی سیاست میں ایک بار پھر "دھرنوں” کے موسم کی آمد آمد ہے.عمران خان نے تو لندن میں ہی اپنی ایجاد کردہ کڑوی دوائی کا رس بھی چکھ لیا جب مسلم لیگ نواز برطانیہ کے کارکنوں نے ان کی سابقہ ساس کے گھر کا گھیراو کیا. یقینا مسل لیگ نون کی جانب سے کیا گیا یہ اقدام کوئی قابل رشک یا قابل تعریف سیاسی چال نہیں ہے.لیکن بہرحال شاید عمران خان کو اب احساس ہوا ہو گا کہ دھرنوں جلاؤ گھیراو اور شہر جام کرنے کی جو سیاست وہ اس دہائی میں لائے ہیں اس کے کتنے مضر اثرات ہیں.کیونکہ عمران خان ایک جزباتی شخص ہیں اس لیئے اب وطن واپسی پر قوی امید ہے کہ وہ بھی نواز شریف کی ذاتی رہائش گاہ جو کہ رائے ونڈ میں واقع ہے اس کا گھیراو کریں گے.یعنی جو مقصد لندن میں چھوٹے سے مظاہرے سے حکمران جماعت حاصل کرنا چاہ رہی ہے عمران خان صاحب اسے اپنی کم فہمی اور جذباتیت کے باعث من و عن پورا کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں گے.

حکمران جماعت کو اس وقت اپنے خلاف جلسے جلوس اور احتجاج کی سیاست آکسیجن کی مانند درکار ہے تا کہ پانامہ لیکس کے معاملے سے توجہ ہٹا کر پھر سے اپنے ووٹرز کی ہمدردیاں سمیٹی جائیں.عمران خان کی احتجاجی سیاست کا انداز اور ان کی تلخ اور گری ہوئی زبان سے آج تک مخالفین اور بالخصوص مسلم لیگ نون کو فائدہ ہی ہوا ہے. اور اب بھی عمران خان یقینا اپنی ان حرکات سے تیزی سے غیر مستحکم ہوتی ہوئی حکومت کو پھر سے مستحکم کر دیں گے.پانامہ لیکس کی جو تحقیقات اب تک سامنے آئیں ہیں اور دنیا بھر میں حکومتوں پر ان کی وجہ سے جو سیاسی دباو پڑا ہے وہ کارپوریٹ سیاسی کلچر میں ریجیم شفٹ کی جانب واضح اشارہ دیتا دکھائی دیتا ہے.آخر کو اتنے بڑے دستاویزی ثبوت یکایک تو ریلیز ہوتے نہیں اور نہ ہی کسی منظم طاقت کی پشت پناہی کے بنا پانامہ لیکس کا منظر عام پر آنا ممکن تھا.خیر یہ ڈور بھی جلد سلجھ جائے گی لیکن جو گتھی میاں نواز شریف اور انکی جماعت سے نہیں سلجھنے پا رہی وہ اب ان انکشافات کے بعد کی سیاسی صورتحال ہے.

راقم گزشتہ کالم میں عرض کر چکا ہے کہ جوں جوں دنیا میں مختلف ممالک کے وزرائے اعظم استعفے پیش کرتے جائیں گے توں توں نواز شریف کا اپنے منصب پر بیٹھے رہنا مشکل ہوتا چلا جائے گا. جو بات حکمران جماعت کی سیاسی فہم میں سمونے نہیں پا رہی وہ یہ ہے کہ پانامہ لیکس دو دھاری تلوار ہے. اگر اس کی ایک دھار سے معجزاتی طور پر حکمران جماعت بچ بھی نکلے تو دوسری دھار سے پھر شکار ہو جائے گی. کیونکہ یہ مدعا اب ہمیشہ نون لیگ کے گلے پڑا رہے گا اور بینظیر بھٹو کی مانند نواز شریف بھی رفتہ رفتہ منی لانڈرنگ اور کرپشن کے الزامات کی وجہ سے متنازعہ ہوتے جائیں گے. پانامہ لیکس انتخابی دھاندلی جیسا معاملہ نہیں ہے کہ جس پر انکوائری کمیشن بٹھا کر اپنی ساکھ بچائی جا سکے.آف شور کمپنیوں میں پیسہ رکھا گیا ہے اور یہ جرم نواز شریف اور ان کے خاندان سے سرزد ہوا ہے.اب یہ ممکن نہیں ہے کہ اسے بیرونی سازش یا ایسٹیبلیشمنٹ کی چال قرار دے کر اس معاملے کو دبایا جا سکے. اکثر یہ گمان ہوتا ہے کہ شاید ہمارے حکمران اپنی غلطیاں سدھارنا ہی نہیں چاہتے انہیں اس بات کا ادراک نہیں ہونے پا رہا کہ ان کی انہی حرکتوں کی وجہ سے وطن عزیز میں بسنے والی ایک بہت بڑی اکثریت اب سیاست اور جمہوریت کا نام سننے کو بھی تیار نہیں نظر آتی.ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کرتے تمام سیاستدان جب لینڈ کروزروں پراڈو اور بینٹلی جیسی گاڑیوں میں اتراتے ہوئے پھرتے ہیں تو یہ نئی نسل اور ان پرانے لیڈروں بشمول نواز شریف عمران خان اور آصف زرداری میں نفرت کی خلیج مزید گہری ہو جاتی ہے.

دوسری جانب یہ سوال آج بھی حل طلب ہے کہ آخر سیاست میں آنے کے بعد ہر شخص کے اثاثوں میں رتبے میں اور معیار زندگی میں راتوں راتوں کیسے بہتری اور اضافہ ہو جاتا ہے. خیر اس وقت سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان کو استعمال کر کے نواز شریف اپنی کرسی بچا پائیں گے یا پھر عالمی ایسٹیبلیشمنٹ کے مک مکا کی وجہ سے کچھ عرصہ مزید ایک اور سیاسی بخشیش کے دم پر مدت حکمرانی پوری کریں گے. عمران خان کو سیاسی بقا اور اگلے انتخابات میں کامیابی کیلئے ہر صورت میں نواز شریف کا استعفی درکار ہے.جس کی بنا پر وہ اپنی کھوئی ہوئی سیاسی ساکھ بحال کرنے کے لائق ہو سکتے ہیں.لیکن پانامہ لیکس کی مانند کچھ لیکس عمران خان کے کھاتے میں بھی ہیں.کے پی کے میں جہانگیر ترین کو ٹھیکوں سے نوازنے سے لے کر اپنے دو خصوصی یاروں زلفی اور گولڈی کے ساتھ ان کے بھی کئی راز ہیں جو شوکت خانم لے ہیسے کو آف شور کمپنیوں میں استعمال کرنے سے لیکر سڑاک ایکسچینج کے سٹے تک جاتے ہیں.یقینا آف شور کمپنیوں اور سٹاک ایکسچینج میں لگایا گیا شوکت خانم کا پیسہ واپس تو آیا لیکن منافع نہیں آیا. یہ منافع ظاہری بات ہے زلفی اور گولڈی جیسے یاروں کے پاس جانے کے شواہد آج کے جدید دور میں ڈھونڈنا حکمران جماعت کیلئے قطعا مشکل نہیں تھا.

دوسری جانب پانامہ لیکس میں جہانگیر ترین کا اپنا نام بھی شامل ہے اور اس معاملے کو بہت زیادہ اچھالنے کی صورت میں جہانگییر ترین کو بھی جانا پڑے گا اور عمران خان قطعا جہانگیر ترین کے فنڈز اور جھولوں کے بنا سیاسی سفر کو جاری رکھنے کے عادی نہیں.ملک ریاض جو زرداری صاحب نواز شریف اور عمران خان تینوں کے مشترکہ دوست ہیں کچھ معلومات عمران خان دوسرے وی بھی اپنے سینے میں پوشیدہ رکھتے ہیں جسے وقت آنے پر یا بقیہ دوستوں کے اصرار پر وہ منظر عام پر بھی لا سکتے ہیں.تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیشہ کی طرح عمران خان رولا رپا ڈال کر راولپنڈی کی جانب دیکھیں گے کہ شاید وہاں سے کوئی سیاسی بیساکھی انہیں میسر کر دی جائے تا کہ وہ نواز شریف پر چڑھ دوڑنے کے قابل ہو سکیں. عمران خان اپنی سیاسی چالوں میں تو شاید کامیاب نہ ہو سکیں لیکن ان کا دباو آصف زرداری اور نواز شریف کے درمیان بڑھتے فاصلوں کو کم کر کے پھر سے انہیں قریب لا کر ایک دوسرے کو تحفظ دینے پر آمادہ رکھے گا.یوں قوی امکان ہے کہ سیاسی طور پر نواز شریف کو وقتی مصنوعی تنفس کے سہارے وزیر اعظم ہاوس میں رہنے کا موقع مل جائے. یہ تو ہے موجودہ حالات کا سیاسی تجزیہ. لیکن ایک تجزیہ اور بھی ہے جو کہ اس فرسودہ نظام کے کھوکھلا اور گلے سڑے ہونے پر ہے.

تھر کے ریگستانوں سے لیکر بلوچستان تک اور جنوبی پنجاب سے لیکر فاٹا تک بچے بوڑھیں عورتیں بھوک غربت اور بیماریوں کے ہاتھوں کیڑے مکوڑوں کی مانند مر رہے ہیں.ایک طرف سیاسی اشرافیہ جمہوریت کی گردان الاپتے محلات میں امپورٹڈ پانی سے لیکر گاڑیاں تک استعمال کرتے ہیں اور دوسری جانب وطن عزیز میں پچاس فیصد سے زائد آبادی خط غربت سے بھی نیچے زندگی بسر کرتی ہے.ایک عام آدمی چند سو روپے کے لین دین کے الزام میں جیلوں میں سڑتا ہے . اور دوسری جانب آف شور کمپنیاں. سوئیس اکاونٹ اور شوکت خانم کے نام پر اربوں روپے کے غبن کے الزامات والے دندنانے پھرتے ہیں. ایک عام آدمی کیلئے قانون آج بھی گوروں کی غلامی کے زمانے کا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ اس قانون کو نافذ کرنے والے گوری چمڑی کے نہیں بلکہ ہماری ہی چمڑی کے ہیں.پانامہ لیکس اور اس کے بعد تمام سیاسی مداریوں کے بندر تماشے کو دیکھ کر بھگت سنگھ کا قول بہت یاد آ رہا ہے کہ ” آزادی صرف انگریز سامراج سے نہیں بلکہ ان کے پٹھوؤں سے بھی حاصل کرنی ہے وگرنہ گوروں کی غلامی سے نکل کر ہم اپنی اشرافیہ کی غلامی میں چلے جائیں گے.” خیر وطن عزیز کا المیہ یہ بھی ہے کہ آئین دستور قانون کو صرف آمر ہی نہیں بلکہ تمام سیاستدان بھی ہر دور میں اپنے اہنے مفادات کی خاطر پیروں تلے روندتے آئے ہیں.یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں جمہوریت نہ تو کبھی آئی اور نہ ہی کبھی پنپ پائی. لیکن جمہوری روایات یا اقدار کے پنپ نہ پانے کی سب سے بڑی وجہ بھی خود وطن عزیز کی سیاسی اشرافیہ ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے