نام نہاد ’’حق اظہار‘‘

ذاتی طورپر میں بہت شدت اور سنجیدگی سے یہ محسوس کرتا ہوں کہ مسلمانوں کو ہمارے نبی ﷺ کے بارے میں غیروں کے ادا کئے گستاخانہ کلمات یا بنائے کارٹون چھپنے کے بعد مشتعل ہوکر دوسروں کی جان اور املاک کو نقصان نہیں پہنچانا چاہیے۔ آج کی دُنیا میں اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے کے بہت مؤثر طریقے دستیاب ہیں۔ ہمیں ان کو بڑے تخلیقی انداز میں بھرپور طریقے سے ہر صورت استعمال کرنا چاہیے۔ ایسا کرتے ہوئے البتہ ہمیں اس بات کا اہتمام بھی کرنا چاہیے کہ رسول پاکﷺ کی ذاتی زندگی کے وہ تمام پہلو بھی لوگوں کے سامنے لائے جائیں جن کی وجہ سے خلق خدا کی ایک بے پناہ تعداد انہیں رحمتہ اللعالمین کہنے پر مجبور ہوئی۔

یورپ کے جرائد میں گستاخانہ کلمات یا کارٹون چھپنے کے بعد جب کبھی پاکستان میں ہنگامے پھوٹ پڑتے ہیں تو اسلام آباد میں مقیم یورپی سفارت کار بہت پریشان ہوجاتے ہیں۔ وہ مجھ ایسے صحافیوں سے طویل ملاقاتوں کے ذریعے ایسے ہنگاموں کی وجوہات سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کم از کم میرا سارا وقت انہیں یہ سمجھانے پر صرف ہوجاتا ہے کہ نبی پاکﷺ کی ذات کے بارے میں دُنیا بھر کے مسلمان بہت جذباتی ہیں۔ پاکستان، بھارت یا بنگلہ دیش کے مسلمانوں میں یہ جذبات وارفتگی کی انتہائوں تک چلے جاتے ہیں۔ عقلی رویوں کے دعوے دار بنی یورپ کی حکومتوں اور دیگر اداروں کو اس وارفتگی کا احساس ہونا چاہیے۔

میرے دلائل سے اختلاف کئے بغیر یورپی سفارت کار اور صحافی مجھے جواب دیتے ہیں تو صرف اتنا کہ اپنے نبیﷺ کی ذات سے تمام تر محبت کے باوجود مسلمانوں کو یہ بات بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ’’آزادیٔ اظہار‘‘ یورپی ثقافت کا اہم ترین ستون ہے۔ کوئی شخص آزادیٔ اظہار کے حق کو استعمال کرتے ہوئے چند گستاخانہ کلمات لکھ ڈالے یا کارٹون بناکر چھاپ دے تو وہاں کی حکومتیں اس ضمن میں کچھ نہیں کرسکتیں۔ مسلمانوں کے جذبات کو خوب سمجھنے کے باوجود یہ حکومتیں اس ضمن میں قطعاََ بے بس ہیں۔

جرمنی کی چانسلر اینجلامرکل کی حکومت کا شکریہ جس نے حال ہی میں کچھ ایسے فیصلے کئے ہیں جنہوں نے نام نہاد ’’حقِ اظہار‘‘ کی حدودوقیود ہمارے سامنے بے نقاب کردی ہیں۔ اس ضمن میں میرے غصے کی اصل وجہ یہ بھی ہے کہ ’’حقِ اظہار‘‘ کو بڑی آسانی کے ساتھ فراموش کرنے کے لئے جرمن حکومت کو نبی پاکﷺ کی ذات کی وجہ سے پھوٹے ہنگاموں نے مجبور نہیں کیا۔ یورپ کی ایک بہت ہی ضدی اور طاقت ور لیڈر-اینجلا مرکل- بلکہ ترکی کے صدر کے سامنے ’’بکری‘‘ ہوگئی ہیں۔

دُنیا کے دیگر ٹی وی چینلز کی طرح جرمنی کے سرکاری سرپرستی میں چلائے جانے والے ایک چینل پر بھی طنز ومزاح پر مبنی ایک ہفتہ وار پروگرام ہوتا ہے۔ Extra-3اس کا نام ہے۔ اس پروگرام کی جان Jan Boehmermannنامی ایک مشہورو مقبول ’’مخولیہ‘‘ ہے۔

چند ہفتے قبل اس مسخرے نے اپنے پروگرام میں ترکی کے صدر کی بھد اُڑائی۔ اس پروگرام کے نشر ہونے کے فوری بعد ترکی میں مقیم جرمن سفیر کو وزارتِ خارجہ نے طلب کیا اور اسے صاف الفاظ میں بتایا گیاکہ انقرہ اپنے صدر کی ایسی توہین برداشت نہیں کرسکتا۔ اس احتجاج کی اطلاع پانے کے بعد Boehmermannنے ایک گانا تیار کرلیا۔ اس گانے کو اس نے ’’سلطان اردوان‘‘ کا روپ دھار کر اپنے پروگرام میں پیش کیا۔ ترکی کے صدر اس گانے میں ایک گڈریے کی صورت کسی پہاڑی پر بیٹھے بکریوں کے ایک ریوڑ سے ہم کلام ہیں۔

یہ گانا نشر ہوجانے کے بعد ترکی کی حکومت مزید مشتعل ہوگئی۔ ایک سخت اور باقاعدہ مراسلے کے ذریعے اس نے جرمن حکومت کو اس ملک کا ایک پرانا مگر اب تک کبھی نہ استعمال ہونے والا قانون یاد دلایا۔ اس قانون کے مطابق جرمنی کا کوئی شہری اس ملک کے سربراہ کی ’’توہین‘‘ نہیں کرسکتا جسے برلن اپنا ’’دوست ملک‘‘ گردانتا ہے۔
ترکی کا احتجاجی مراسلہ وصول کرنے کے بعد جرمن حکومت نے انقرہ کو ہرگز یاد نہیں دلایا کہ اس کے ملک میں اظہارِ رائے نامی کوئی حق ہوتا ہے۔ اس مراسلے کو بلکہ وزارتِ قانون کے پاس بھیج دیا گیا تاکہ وہ اس کا بغور جائزہ لے کر اس بات کا فیصلہ کرسکے کہ Jan Boehmermannکو مذکورہ قانون کے مطابق عدالتوں سے سزا دلوائی جاسکتی ہے یا نہیں۔

وزارتِ قانون کے پاس یہ مراسلہ پہنچ جانے کے بعد Boehmermannنے گھبراکر ایک اور پروگرام تیار کیا جس میں ترکی کے صدر کو مزید رگیدنے کے بجائے اعلان کیا تو صرف اتنا کہ وہ چند ہفتوں کے لئے اپنے پروگرام کو بند کررہا ہے کیونکہ اسے ’’آرام‘‘ کی ضرورت ہے۔

انسانی حقوق اور پریس کی آزادی کے لئے کام کرنے والی تنظیمیں اس امر سے خوب آگاہ ہیں کہ Boehmermannکو اپنا پروگرام روک کر چھٹی پر جانے کا ’’مشورہ‘‘ دیا گیا تھا۔ جبری رخصت کے اس فیصلے پر احتجاج وغیرہ بھی کیا جارہا ہے۔ تمام صحافیوں یا مزاحیہ پروگرام کرنے والوں نے یک جا ہوکر Boehmermannکے دفاع میں اگر چہ وہ ’’یک جہتی‘‘ ہرگز نہیں دکھائی جو کچھ برسوں سے مسلمانوں اور ان کی نظر میں بہت ہی مقدس مانی جانے والی ہستیوں کی توہین کرنے والوں کے بارے میں یورپ کے کئی ممالک میں ایک باقاعدہ مہم کے ذریعے دکھائی گئی تھی۔

ثابت ہوگیا کہ اظہار کے نام نہاد حق کے مقابلے میں جرمنی جیسی مضبوط ریاست بھی اکثر اپنے مفادات کو ترجیح دینے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ ترکی کے صدر کو ان کے اپنے ملک کے صحافی ’’سلطان اردوان‘‘ کہنا شروع ہوگئے ہیں کیونکہ موصوف نے انتہائی سفاکی کے ساتھ اپنے ملک کے اپوزیشن سیاستدانوں اور صحافیوں کا جینا دوبھر کررکھا ہے۔ یورپ کو ’’سلطان اردوان‘‘ کے آمرانہ رویوں سے مگر کوئی شکایت نہیں۔ وہStrategicوجوہات کی بناء پر ان دنوں بلکہ سارے یورپ کے لاڈلے بن چکے ہیں۔ وجہ ان سے پیار کی صرف وہ معاہدہ ہے جو ’’سلطان اردوان‘‘ نے جرمنی کے ساتھ طے کیا ہے۔ اس معاہدے کے بعد ترکی سے کسی نہ کسی طرح یونان اور بعدازاں یورپ پہنچ جانے والے شامی مہاجرین کو پکڑکر دوبارہ ترکی بھیج دیا جائے تو وہاں کی حکومت ان مہاجرین کو اپنے ہاں بسانے کا بندوبست کرے گی۔ اس بندوبست کو یقینی بنانے کے لئے ترکی کو تین ارب یورو فراہم کرنے کا وعدہ بھی ہوا ہے اور ساتھ ہی اس بات کی یقین دہانی بھی کرائی گئی ہے کہ ترکی کے پاسپورٹ پر سفر کرنے والے اب یورپ کے کسی بھی ملک میں آزادی سے آجاسکیں گے۔
مختلف یورپی ممالک میں شامی مہاجرین کی آمد نے وہاں کی کئی حکومتوں کے لئے بے تحاشہ مسائل پیدا کردئیے ہیں۔ ان کی وجہ سے یورپ میں دائیں بازو کی کئی نسل پرست جماعتیں کئی برسوںتک تقریباََ گمنام اور بے اثر رہنے کے بعد اب اپنی مقبولیت کی انتہائوں کو چھورہی ہے۔ یورپ کونسل پرست فسطائیت سے بچانے کے لئے جرمن حکومت اب ترکی کے ’’سلطان اردوان‘‘ کے آگے سرنگوں ہونے پر مجبور ہوگئی ہے۔ مجھے قوی امید ہے کہ اب کوئی یورپی صحافی یا سفارت کار میرے ساتھ ملاقاتوں کے دوران اپنے ملک میں اظہار آزادی کے بنیادی حق کا چرچا کرنے سے پرہیز کرے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے