قدرتی آفات سے جڑے تصورات

ملک میں اکثر و بیشتر قدرتی آفات آتی رہتی ہیں. کبھی سیلاب تو کبھی زلزلے. فالٹ لائن میں واقع ہونے کی وجہ سے ہم اکثر اوقات زلزلوں کے جھٹکوں کا سامنا کرتے ہی رہتے ہیں. شدید زلزلے کےجھٹکے خصوصی طور پر ایک اضطرابی کیفیت پیدا کرتے ہیں. زلزلے پوری کائنات میں آتے ہیں اور ان کی سائنسی توجیہہ ہوتی ہے. جیولاجیکل تبدیلیوں کے باعث زمین کے نیچے موجود پلیٹس کی نقل و حرکت سے زلزلے آتے ہیں اور یہ سلسلہ لاکھوں سال سے جاری ہے .لیکن ہم لوگ اسے بھی خدا کی رضا سمجھ کر احتیاطی تدابیر اختیار کرنے سے گریز کرتے ہیں.

ایسے سانحات کے فورا بعد الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر زلزلوں کو بد اعمالیوں اور کرپٹ حکمرانوں کے سر تھوپ کر عوام کو خوب چورن بیچا جاتا ہے.کوئی اب کیا منطق پیش کرے اور کیسے سمجھائے کہ ان سانحات میں جان گنوانے والے زیادہ تر کچے یا بوسیدہ مکانات میں بسنے والے غریب شہری ہوتے ہیں جن کا بد اعمالیوں اور کرپشن سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا . کولہے کی بیل کی طرح کام کرنے والے ان بیچاروں کے ہاں یقین کیجیئے لذت اور حسرت گناہ تک کا تصور بھی نہیں ہوتا. اور اگر اس توجیہ کو مان لیا جائے تو پھر تو زلزلے سب سے پہلے یورپ یا امریکہ میں آنے چاہییں جہاں بقول انہی حضرات کے عریانی سب سے زیادہ ہے یا پھر مریخ اور چاند پر زلزلے آنے کی کیا توجیہ ہو سکتی ہے.

جدید سائنس کو مزہب سے متصادم سمجھنے والے ایک مخصوص گروہ کی وجہ سے ہم ان آفات کو بھی رضائے الہٰی کے کھاتے میں ڈال کر مرنے والے افراد کو عذاب الہٰی کا شکار قرار دیکر ٹیکنالوجی سے منہ موڑے کب تک بیٹھے رہیں گے اور سانحات اور آفات کے بعد بھکاریوں کی طرح دوسرے ممالک سے امداد اور ریسکیو آپریشن کی بھیک مانگتے رہیں گے.ان سانحات میں مرنے والے غربا اور ان کے سوگوار خاندانوں کے لیئے شاید اس سے بڑھ کر اذیت اور نہیں ہو سکتی کہ ان سانحات کو مذہبی تعصب کا رنگ دے دیا جائے .زلزلے ہوں یا سیلاب ان آفات سے متاثر بیچارہ غریب آدمی ہوتا ہے . تمام علمائے اکرام کو اب جدید سائنسی تحقیق کی روشنی میں ان قدرتی آفات دوارے بھی کوئی منطق اور دلیل والا فتوی جاری کر دینا چاہیے تا کہ ایک غریب اور مفلس انسان کم سے کم ان حادثات اور آفات کا شکار ہونے کے بعد عزت کی موت تو مر سکے.

زلزلے مذہبی تصورات کے یا کسی گناہ کی وجہ سے نہیں بلکہ جیولاجیکل تبدیلیوں کی وجہ سے آتے ہیں انہیں مذہب کی اور گناہ و ثواب کی عینک لگا کر ان آفات میں مرنے والے غربا کی توہین مت کیجئے .ہمارے میڈیا پر بیٹھے اینکرز رپورٹرز اور تجزیہ نگاروں کو بھی ایسے سانحات اور آفات کی کوریج کیلئے تربیت کی اشد ضرورت ہے. جس بھونڈے انداز میں گلے پھاڑتے الیکٹرانک میڈیا پر بیٹھے یہ حضرات ریٹنگ کی دوڑ میں زلزلے یا سیلاب کے بعد عوام کو مزید اضطراب اور بے چینی کا شکار کرتے نظر آتے ہیں اس سے اکثر و بیشتر تاثر ملتا ہے کہ جیسے بس وطن عزیز میں اب ہر آنے والے لمحے میں ایک نیا زلزلہ یا سیلاب آئے گا.کیا ہی اچھا ہو کہ اگر ہمارا میڈیا مہذب اور ترقی یافتہ ممالک کے میڈیا سے ایسے سانحات کی رپورٹنگ اور کوریج کا گر سیکھ لے.بجائے عوام کی اضطرابی کیفیت کو دور کرنے کے تمام کے تمام ٹی وی چینلز ایسی وڈیوز دکھانے میں مصروف ہو جاتے ہیں کہ خدا کی پناہ. میڈیا کی غیر زمہ داری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تصاویر اور وڈیوز تک سوشل میڈیا کی ویب سایٹس سے اٹھا کر اپنے اپنے چینلز کے لوگو کے ساتھ دی جاتی ہیں گویا کہ جیسے یہ کوئی خوشخبری ہو.

معلوم یوں ہوتا ہے کہ منافع کی اس دوڑ میں قدرتی آفات کو بھی ایک ایونٹ بنا کر خوب جزباتی اور فلمی رنگ میں بیچا جا رہا ہے.رہی سہی کثرٹاک شو کے میزبانوں اور تجزیہ نگار پوری کر دیتے ہیں جو اپنے تجزیوں سے ہر ممکن صورت میں عوام کو تسلی دینے اور قدرتی آفات میں حفاظتی تابیر اور بچاو کے طریقوں کے بجائے آنے والے لمحات میں زلزلوں کے مزید جھٹکوں یا سیلاب کے مزید تباہ کاریوں کا ذکر ہمہ وقت کرنے میں مصروف رہتے ہیں. ایسے حضرات جن کا جیالوجی اور سائینس سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں وہ بھی ان امور پر ماہر بنے عوام کو ہر آنے والے لمحے میں ایک نئے زلزلے کی نوید سنانے میں مصروف ہو جاتے ہیں. کبھی درختوں کی کٹائی اور ماحولیاتی آلودگی کو زلزلے کا باعث قرار دے دیتے ہیں کبھی گلیـشیرز کے پگھلنے کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں یا پھر اپنی اپنی سیاسی وابستگیوں کے تابع مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی زلزلے کے بعد ہونے والی امدادی کارواہیوں پر ہرزہ سرائی کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں. جس قدر خوف و ہراس میں ٹی وی چینلز کے زریعے عوام کو مبتلا کیا جاتا ہے وہ بیان کرنا بھی ممکن نہیں. اسی طرح سول سوسائیٹی کا ایک مخصوص گروہ موم بتی مافیا جو کہ اکثر لبرلزم کا ماسک پہن کر کسی بھی حادثے یا سانحے پر موم بتیاں جلا کر سیلفیز لینے پہنچ جاتا ہے یا فائیو سٹار ہوٹلوں کے گرم کمروں میں ان غربا کے نام پر آئی ہوئی امداد یا چندے کی بٹوری ہوئی رقم سے سیمینارز منعقد کر کے خوب انسانیت دوستی کا پرچار کرتا نظر آتا ہے

یہ طبقہ بھی ان آفات کے بعد سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر خوب سرگرم عمل نظر آتا ہے .جذباتی سے سٹیٹس سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر کے اور پھر ٹی وی سکرینوں پر آ کر بھی خوب آنسو بہائے جاتے ہیں.اب خدا جانے کہ یہ غم کے آنسو ہوتے ہیں یا اس خوشی کے جو کہ انہیں اس سانحے سے متاثر ہونے والے افراد کی مدد کے نام پر ملنے والی رقم اور اس کے ہڑپ کر جانے سے حاصل ہوتی ہے.نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ نامی سفید ہاتھی بھی کوئی کاکردگی دکھانے میں ناکام نظر آتا ہے.حتی کہ قدرتی آفات میں مرنے اور زخمی ہونے والوں کی تعداد جانچنے کے لئیے بھی صحافیوں کی رپورٹس کا مرہون منت نظر آتا ہے .

2005 کے ہولناک زلزلے کے بعد بھی نہ تو اس ادارے نے آفات سے بچاو کی ہنگامی تدابیر پر کوئی خاص کام کیا اور نہ ہی ایسی آفات سے نمٹنے کیلئے لوگوں کو کوئی آگہی فراہم کی. کچھ یہی بے بسی ہمیں ERA کے ادارے کی بھی دیکھنے میں نظر آتیں ہے. آسانحات اور آفات سے مکمل بچاو یقینا ناممکن ہے لیکن بہتر مینیجمنٹ اور پلاننگ کے ساتھ نہ صرف ان سے ہونے والے مالی و جانی نقصانات کو کم کیا جا سکتا ہے بلکہ عوام کو ان آفات سے نمٹنے کے لیئے تیار بھی کیا جا سکتا ہے. سکولوں کالجوں یونیورسٹیوں میں ان آفات سے بچاو اور نمٹنے کی تعلیم تو دی جا سکتی ہے .سیاستدانوں سے اس آفت کے نمٹنے کے حوالے سے یہی عرض ہے کہ اداروں کو مضبوط کیجیئے نہ کہ اپنی کرسی اور شخصیت کو اگر پاک فوج ہی ہر طرح کے ہنگامی حالات اور آفات سے نمٹنے کیلئے میدان میں ہو گی تو پھر

جمہوریت اور سویلین اختیارات میں اضافے جیسی باتیں محض خواب ہی لگیں گی. ہم لوگ فالٹ رینج پر واقع ہیں اور مستقبل میں بھی زلزلوں کا سامنا کر سکتے ہیں تو کیوں نہ آج ہی سے اس آفت سے بچاو کیلئے حفاظتی تدابیر اور پلاننگ شروع کر دیں. اسی طرح ہر سال ہم سیلاب کی تباہ کاریوں سے قیمتی انسانی جانوں املاک اور مویشیوں کا نقصان برداشت کرتے ہیں تو کیوں نہ نئے ڈیم بنا کر سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں کو کم کرنے کی کوشش کی جائے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے