وفاقی حکومت پختونخوا کیساتھ ہاتھ کرگئی

تمام تر زمینی حقائق ،اطلاعات اور اعداد و شمار پر مبنی رپورٹس کے باوجود وفاقی حکومت اب بھی یہ حقیقت تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے کہ چائنہ پاک اکنامک کاریڈور ( سی پیک ) کے مغربی روٹ کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے اور دونوں ممالک کے درمیان جو معاملات طے پا چکے ہیں اس کی روشنی میں مشرقی روٹ اور اس سے متعلقہ دیگر بڑے منصوبوں پر نہ صرف یہ کہ کام جاری ہے بلکہ بعض منصوبے تو تکمیل کے قریب بھی پہنچ چکے ہیں۔

جناب احسن اقبال کے مسلسل بیانات اور یقین دہانیوں پر نہ تو اب کسی تبصرے کی گنجائش ہے اور نہ ہی رد عمل دکھانے کی ۔ اصل شکوہ وزیر اعظم نواز شریف سے کیا جانا چاہئے جنہوں نے ایک برس قبل کی اے پی سی کے بعد بذات خود اعلان کیا کہ چھوٹے صوبوں کے خدشات کے خاتمے کیلئے نہ صرف یہ کہ مغربی روٹ پہلے تعمیر کیا جائے گا بلکہ اس سے متعلقہ دیگر منصوبوں کیلئے ترجیحی بنیادوں پر فنڈز بھی مختص کئے جائیں گے ، اے پی سی کے اعلامیے میں بھی یہ یقین دہانی تفصیلات کے ساتھ موجود تھی کہ مغربی روٹ حکومت کی پہلی ترجیح ہے اور اس کو بہر صورت عملی جامہ پہنایا جائے گا ۔ وزیر اعظم کی اس یقین دہانی اور واضح اعلان کے بعد پتہ چلا کہ یہ محض اعلان ہی تھا ۔

اے پی سی کو ہوئے تقریباً ایک سال ہونے کو ہے اس دوران مشرقی روٹ پر ہی کام ہوتا رہا ، صوبہ پختونخوا کی قوم پرست پارٹیوں کے علاوہ صوبائی وزیر اعلیٰ بھی وقتاً فوقتاً سی پیک میں صوبے کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر احتجاج کرتے دکھائی دے رہے ہیں تاہم احسن اقبال اب بھی بضد ہے کہ مغربی روٹ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔سچی بات تو یہ ہے کہ تبدیلی کا سوال یا ایشو تبھی اٹھے گا جب مغربی روٹ کا وجود ہو گا ۔

’’روزنامہ آج‘‘ کی ایک خبر کے مطابق وزیر اعلیٰ نے بہ امر مجبوری فیصلہ کیا ہے کہ مشرقی روٹ صوبہ پختونخوا کے جن علاقوں ( ہزارہ ڈویژن) سے گزرتا ہے وہاں پر اس کے لیئے اراضی کی خریداری سے انکار کیا جائے اور اس مقصد کیلئے مخصوص قانونی دفعہ لگایا جائے ،دوسری طرف وزیر اعلیٰ آن دی ریکارڈ بیانات کے علاوہ نجی محفلوں میں کھلے عام یہ کہہ رہے ہیں کہ سی پیک میں صوبے کے ساتھ دھوکہ کیا جا چکا ہے،

دیکھا جائے تو یہ طرز عمل وفاقی حکومت پر ایک اہم صوبے کے عدم اعتماد کا کھلا اظہار ہے، ضرورت اس بات کی تھی کہ صوبے کی جنگ زدہ صورتحال ، تباہ حال انفراسٹرکچر سامنے رکھ کر ترجیحی بنیادوں پر سی پیک کے ذریعے اس کی حق تلفی کا ازالہ کیا جاتا، صوبے و فاٹا کی قربانیوں کا صلہ دیا جاتا ۔

مگر بڑے بھائی نے نہ صرف زخموں پر مرہم پٹی رکھنے سے گریز کا راستہ اپنایا بلکہ وزیر اعظم کی سطح پر حقیقت پسندی کی بجائے مسلسل دروغ گوئی سے بھی کام لیا گیا ۔ اس بات کا حکمرانوں سے زیادہ اور کس کو علم اور ادراک ہوتا کہ ہم ماضی میں ایسے ہی رویوں کے باعث نہ صرف یہ کہ آدھا ملک گنوا چکے ہیں بلکہ فاٹا اور بلوچستان میں بھی ریاستی عمل داری محض سرکاری دفاتر تک محدود ہو کر رہ گئی ہے ۔

ملک کو مسلسل دہشت گردی کے علاوہ بدترین نوعیت کی فرقہ واریت ، صوبوں کی باہمی کشیدگی، وفاق اور صوبوں کے درمیان بد اعتمادی اور بعض غیر ملکی طاقتوں کی مسلسل مداخلت جیسے سنگین مسائل اور چیلنجز کا سامنا ہے ۔ ہو نا تو یہ چاہئے تھا کہ سی پیک جیسے گیم چینجر منصوبے کے ذریعے محروم اور پسماندہ علاقوں کی ترقی پر خصوصی توجہ دی جاتی اور ان کے ساتھ کی جانے والی مسلسل زیادتیوں کا ازالہ کیا جاتا مگر ہمارے حکمرانوں اور طبقہ اشرافیہ نے یہ موقع بھی ضائع کر دیا ۔

حکومت اگر اب بھی اعلان کرے کہ مغربی روٹ سی پیک میں سرے سے شامل ہی نہیں ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ چھوٹے صوبے خصوصاً صوبہ پختونخوا کسی متبادل مگر قابل عمل منصوبے کی کسی تجویز پر آمادہ بھی ہو جائیں ، اصل مسئلہ بد اعتمادی پر مبنی اس رویے کا ہے جو کہ وفاقی حکومت نے اختیار کیا ہوا ہے ، جس متبادل روٹ کا وزیر اعظم نے سیاسی قائدین کی موجودگی میں ژوب میں افتتاح کیا تھا اگر اس کے خدو خال ، فوائد اور استعمال کے بارے میں صوبوں کو اعتماد میں لیا جائے اور اس کو اپنے طور پر سی پیک کے پراجیکٹس کے ساتھ منسلک کیا جائے تو کچھ نہ کچھ تلافی اور اعتماد سازی کا راستہ ہموار ہو ہی جائے گا ،تاہم تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ ایسا کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی جارہی ۔

اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ مشرقی روٹ ہی پر سبھی کا اتفاق ہو سکتا ہے تو جو تفصیلات موجود ہیں وہ بھی یہ ثابت کرتی ہیں کہ اس میں بھی صوبہ پختونخوا کو بری طرح نظر انداز کیا گیا ہے ، اس ضمن میں ہم سی پیک میں شامل انرجی یا بجلی کے منصوبوں کی تعداد کی مثال دے سکتے ہیں ،ان منصوبوں کی کل تعداد 26ہے تاہم حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ان میں سے کوئی ایک بھی منصوبہ صوبہ پختونخوا کے حصے میں نہیں آیا ہے ،انڈسٹریل زونز ، ریلوے ٹریکس اور متعدد دیگر پراجیکٹس میں بھی صوبے کو نظر انداز کیا گیا ہے۔

حالت تو یہ ہے کہ مجموعی پراجیکٹس میں صوبے کا حصہ چند لاکھ افراد پر مشتمل گلگت بلتستان سے بھی کم ہے حالانکہ ہمارے صوبے کے ساتھ ایک کروڑ کی آبادی رکھنے والا فاٹا بھی منسلک ہے ،جس کو حفاظتی استحکام اور ترقی کی جتنی ضرورت ہے وہ شاید ہی کسی دوسرے علاقے کو ہو۔

اقتدار کی راہداریوں میں سی پیک کے بارے میں یہ تبصرہ اور تجربہ بڑے تکرار اور اہتمام کے ساتھ زیر بحث ہے کہ مغربی روٹ سے اس لئے گریز کی پالیسی اپنائی گئی کہ جن علاقوں سے اس نے گزرنا تھا وہ بدامنی لپیٹ میں ہیں ۔
دیکھا جائے تو یہ دوسروں کی آنکھوں میں دھول جھو نکنے پر مبنی رویہ ہے ، سال 2015کی مختلف سیکورٹی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ اس برس صوبہ بلوچستان حملوں اور ریاست مخالف کاروائیوں کی تعداد میں دیگر تمام صوبوں یہاں تک کہ فاٹا کے مقابلے میں سب سے نمایاں رہا ۔

کراچی حملوں کی تعداد سے دوسرے نمبر پر رہا جبکہ فہرست میں صوبہ پختونخوا تیسرے نمبر پر رہا ۔ بلوچستان میں نہ صرف یہ کہ دہشت گرد کاروائیوں کا تناسب زیادہ رہا بلکہ آدھے صوبے میں علٰحیدگی پسند قوم پرستوں کی لاتعداد کاروائیاں بھی ہوئیں ، بلوچستان ہی وہ واحد صوبہ ہے جہاں پر بقول ریاستی اداروں کے نصف درجن سے زائد غیر ملکی ایجنسیاں نہ صرف آپریٹ کر رہی ہیں بلکہ متعدد نے بہت بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری بھی کی ہے ۔ فرقہ واریت کے واقعات میں بھی یہ صوبہ دوسروں کے مقابلے میں سب سے نمایاں رہا ہے ۔

صوبہ پختونخوا کا اگر بلوچستان کے مجموعی حالات سے موازنہ کیا جائے تو یہ بہت بہتر اور آئیڈیل ہے ۔وفاقی حکومت یا مقتدر قوتوں کی اس دلیل میں کوئی وزن نہیں کہ بد امنی کے بہانے صوبہ پختونخوا کو اس منصوبے سے باہر رکھا جائے ۔ ہمارے حکمرانوں کو پتہ نہیں یہ بات کیوں سمجھ نہیں آر ہی کہ پاکستان کسی مخصوص طبقے یا علاقے کے مفادات کا نام نہیں ہے بلکہ کثیر القومی ریاستی ڈھانچے اور فیڈریشن کا نام ہے ۔ ایسے میں جان بوجھ کر چھوٹے صوبوں کو مزاحمت اور ناراضگی پر آمادہ کرنے یا دھکیلنے سے گریز میں ہی ملک کی سلامتی اور ترقی کا راز پوشیدہ ہے ۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنی غلطی کا کھلے عام اعتراف کر کے زیادتی کا عملی ازالہ کیا جائے اور نیک نیتی کے ساتھ صوبے کو یہ پیغام دیا جائے کہ آپ بھی پاکستان ہو ، ایسا ہونا صوبے کیلئے ہی نہیں پاکستان کی سلامتی اور مستقبل کیلئے بھی ناگزیر ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے