پاناما کا ’’زلزلہ‘‘ اور ہلتی کرسیاں۔۔۔۔!

پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین سیاسی بحران سے گزر رہا ہے۔ حکمرانوں کی کرسیاں اس طرح ہل رہی ہیں جس طرح زلزلے کے جھٹکوں کے دوران دیواریں اور پنکھے ہلتے ہیں۔ ہماری اپوزیشن کا ایک حصہ دھرنے کی ناکامی کے بعد منہ بسورکے بیٹھ گیا اور دوسرے حصے نے اپنا ”حصہ‘‘ وصول کر کے چپ سادھ لی۔ عین مایوسی کے اِن ایام میں”غیبی مدد‘‘ آئی، ”پاناما لیکس‘‘ نے اپنے کرتب دکھائے اور وہ بہت سے راز منکشف ہوئے جن کا لوگ عموماً کانا پھوسی میں ہی ذکر کرتے تھے اور میڈیا جنہیں بیان کرتے ہوئے قانونی نوٹسوں کے خوف کی وجہ سے ”خاموشی ‘‘ اختیار کرلیتاتھا۔ لیکن ”پاناما لیکس‘‘ نے ہر مسئلہ آسان کردیا۔ رقم کی منتقلی ‘ منی لانڈرنگ اور ہاتھی سے بڑے اکائونٹس کے شواہد اس طرح منظر عام پر آنے لگے جیسے زمین اپنے خزانے اُگل رہی ہو اور انکشافات کے چشمے پھوٹ رہے ہوں۔

اصل جھگڑا یہ نہیں ہے کہ یہ پیسے کہاں سے آئے؟ کس طرح حاصل کئے گئے؟ یہ چوری ہے یا حرام کی کمائی؟ قوم کا شکوہ یہ ہے کہ جس حکمران کو اپنے حلف کے تحت دن رات عوام کی ترقی اور خوشحالی کے لئے سوچنا چاہیے، معاشمی انقلاب کھینچ اور گھسیٹ کر اپنے ملک میں لانا چاہیے، وہ شخص 66 غیر ملکی دورے کر کے دنیا بھر میں اپنے کاروبار چمکاتا اورملک کو قرضوں کے چنگل میں پھنساتا رہا۔ ان کاذاتی کاروبار دن رات ترقی کرتا ہوا یہ راز فاش کر گیا کہ ”صاحب زادگان‘‘ 13سال کی عمر میں ہی ارب پتی بن گئے تھے۔ اب اس انکشاف کے بعد پورا شریف خاندان ایک ایسے بحران میں پھنس گیا ہے کہ ان کا حقِ حکمرانی ختم ہوتا نظر آرہا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ کا کہنا ہے کہ ”میاں نواز شریف جتنا جلد وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دے دیں اتنا ہی اچھا ہے‘‘۔ میاں نواز شریف کے لئے اب بھی چوائس ہے کہ وہ الزامات کی دلدل سے نکل کر اپنی جان بچالیں۔ کرغیزستان کے وزیر اعظم نے صرف اس لئے استعفیٰ دے دیا کہ اس کے وزراء کرپٹ تھے اور ان پر بدعنوانی کے الزامات تھے، یہاں تو خاندان کے چشم و چراغ پر الزامات ہیں۔ ولی عہد کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ ان کے بیانات متضاد ہیں۔ ملک کا کوئی حاضر ڈیوٹی یا ریٹائرڈ جج کمشن کی سربراہی کرنے کے لئے تیار نہیں۔ ٹی وی کے ٹاک شوز میں آنے والے بعض وزراء نے اعتراف کیا ہے کہ ”ہمیں بھی کچھ نہیں پتا، ہم کس طرح شریف خاندان کے بارے میں صفائی پیش کریں‘‘۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا تھا کہ ”جہاں تم دولت کے انبار دیکھو تو سمجھ لینا کسی کا حق مارا گیا ہے‘‘۔ ابھی تک کسی کو حقائق کا علم نہیں لیکن جو کچھ اخبارات میں چھپ رہا ہے اس کو پڑھ کر ایک ماہر تعمیرات نے کہا کہ ”اِن رقوم سے دس لاکھ افراد کے نئے گھر بن سکتے تھے‘‘۔ اس کا ترجمہ اس طرح بھی کیا جا سکتا ہے کہ ہوسِ دولت کس طرح ایک پورا شہر اجاڑ کر چلی گئی۔ دولت کی ایک خرابی یہ بھی ہے کہ اگر یہ کسی کے پاس نہ ہو تو عذاب اور اگر ضرورت سے زیادہ ہو تو بھی عذاب! اس لئے مسلم فلسفیوں نے لکھا ہے کہ ”دولت ضرورت کے مطابق ہونی چاہیئے اور اسے زکوٰۃ سے پاک کرنا بھی ضروری ہے، پھر دولت کبھی عذاب نہیں بنے گی‘‘۔ افسوس یہ ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں نے گزشتہ 8 برس میں جو کہ جمہوریت کے روشن ایام تھے، عوام کے لئے کچھ بھی نہیں کیا۔ قرضے کی رقوم بڑھاتے چلے گئے، بجٹ کے بعد بھی ٹیکس لگاتے رہے، عوام نے پہلے سات سالہ دور میں اس کا نام ”زرداری ٹیکس‘‘ رکھا اور اب 3 سالہ دور میں حالیہ ٹیکسوں کا نام ”شریف ٹیکس‘‘ رکھا گیا ہے۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ پاکستانی حکمرانوں اور سیاسی خاندانوں کے بچے ملک سے باہر رہتے ہیں، تعلیم بھی وہیں حاصل کرتے ہیں، کاروبار بھی وہیںکرتے ہیں، سرمایہ بھی وہیںرکھتے ہیں اور علاج بھی وہیں ہوتا ہے۔ حد یہ ہے کہ سیاست بھی بیرون ملک بیٹھ کر کی جاتی ہے۔ حکومت کرنے کے لئے پاکستان آنا مجبوری ہے ورنہ یہ کام بھی وہ لندن، پیرس اور نیویارک سے ہی کرتے۔

وزیر اعظم صاحب! کتنی عجیب بات ہے کہ آپ تیسری مرتبہ وزیراعظم بنے ہیں، لیکن پورے ملک میں کوئی ایک ایسا ہسپتال نہ بنا سکے جہاں آپ کا علاج ہی ہو جاتا اور آپ کوسفر کی پریشانیاں اٹھاتے ہوئے سات سمندر پار جانے کی ضرورت نہ پڑتی۔ بقول انور مسعود:
حکام کو نہ پڑے دورکا سفر
کچھ ایسا انتظام ہو، ایسی سبیل ہو
میری یہی دعا ہے کہ انور میرا وطن
طبی معائنے کے لئے خود کفیل ہو
میاں نواز شریف کے لئے موقع ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپنا کیس پیش کریں اور پارلیمنٹ کویہ بتائیں کہ یہ کوئی بری بات نہیں ہے، ان کے خاندان کے لوگوں نے وزیر اعظم ہائوس کے اثر و رسوخ سے جو پیسہ کمایا ہے وہ ان کا حق تھا اور وہ قومی ترقی کی جو پالیسیاں پیش نہ کرسکے اس میں کوئی بدنیتی نہیں تھی بلکہ وہ مناسب وقت کا انتظار کررہے تھے۔ اربوں ڈالر کے قرضے لینے کے باوجود خزانے کا چوکیدار دبئی میں صرف 2 ٹاور کیوں بناسکا؟ اس کی بھی جواب طلبی ہونی چاہیے۔ امریکہ کے صدر جان ایف کینیڈی نے کہا تھا کہ ”میرے پیارے امریکیو! میرا دل چاہتا ہے کہ دنیا بھر کی نعمتیں سمیٹ کر امریکی عوام کے قدموں میں ڈال دوں۔‘‘ پاکستان کا کوئی حکمران یہ کیوں نہیں کہتا کہ ”پیارے پاکستانیو! میرا دل چاہتا ہے کہ آپ کو جو نعمتیں ملی ہوئی ہیں وہ چھین کر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قدموں میں نہ ڈال دوں‘‘۔ کاش کوئی ایسا حکمران آتا تو وہ پاکستانی عوام کا ہیرو ہوتا، ”پاناما لیکس‘‘ تو چھوڑیئے ”اوباما لیکس‘‘ بھی اس کا کچھ نہ بگاڑ سکتیں، لیکن جن کے پتے کمزور ہوتے ہیں اور جن درختوں کی جڑیں بیمار ہوتی ہیں وہ معمولی ہوا سے بھی گر جاتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے