’عدالتی کمیشن کا فیصلہ چیف جسٹس واپس آ کر کریں گے‘

وفاقی حکومت نے وضاحت کی ہے کہ پاناما لیکس کی تحقیقات سے متعلق عدالتی کمیشن کسی بھی ماہر چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ یا کسی بھی بین الاقوامی فورنزک کمپنی کی خدمات حاصل کرسکتا ہے.

پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کے قیام کی حکومتی درخواست کے حوالے سے سپریم کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ پاناما لیکس سے متعلق عدالتی کمیشن کے بارے میں فیصلہ انور ظہیر جمالی وطن واپسی پر ہی کریں گے۔

چیف جسٹس انور ظہیر جمالی ترکی کے دورے پر روانہ ہوگئے اور ان کی جگہ سپریم کورٹ کے سینیئر جج میاں ثاقب نثار نے پاکستان کے قائم مقام چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اُٹھا لیا ہے۔

* ’الزام ثابت ہوا تو وقت ضائع کیے بغیرگھر چلا جاؤں گا‘
* ’فوج ہر سطح پر احتساب کی حمایت کرے گی‘

حلف برداری کی تقریب کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے غیر رسمی بات کرتے ہوئے قائم مقام چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ چونکہ حکومت کی طرف سے عدالتی کمیشن تشکیل دینے کے لیے خط مستقل چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کو لکھا گیا ہے اس لیے وہی اس کمیشن کی تشکیل کا فیصلہ کریں گے۔

وفاقی حکومت نے وضاحت کی ہے کہ پاناما لیکس کی تحقیقات سے متعلق عدالتی کمیشن کسی بھی ماہر چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ یا کسی بھی بین الاقوامی فورنزک کمپنی کی خدمات حاصل کرسکتا ہے۔

140926103458_pakistan_supreme_court_building__640x360_afp_nocredit

اگر عدالتی کمیشن کسی شخص یا ادارے کی خدمات حاصل کرتا ہے تو اس پر اُٹھنے والے اخراجات وفاقی حکومت برداشت کرے گی.

وفاقی حکومت نے اگرچہ اس بارے میں کوئی تحریری وضاحتی بیان جاری نہیں کیا تاہم حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کمیشن کے اختیارات سے متعلق ضابطہ کار میں جہاں یہ کہاں گیا ہے کہ کمیشن 1908کے دیوانی ایکٹ کے تحت اس کی تحقیقات کے لیے وفاقی اور صوبائی اداروں کی خدمات حاصل کر سکتا ہیں وہیں وہ کسی بھی انکم ٹیکس کے ماہر کے علاوہ فورنزک فرم کی خدمات بھی حاصل کرسکتا ہے۔

اس کمیشن کی تشکیل کے بعد اگر عدالتی کمیشن کسی شخص یا ادارے کی خدمات حاصل کرتا ہے تو اس پر اُٹھنے والے اخراجات وفاقی حکومت برداشت کرے گی اور اس کے لیے کسی پیشگی اجازت کی بھی ضرورت نہیں ہوگی۔

وزیر اعظم کے ماتحت کیبنٹ ڈویژن کے حکام کو کو ہدایت کی گئی ہے کہ کمیشن کو ہر ممکن معاونت فراہم کرے۔

آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے عدالتی کمیشن کی تشکیل کے لیے لکھے جانے والے خط میں ککس بیک کی رقم اور سیاسی اثرورسوخ استمال کرکے قرضے معاف کروانے والوں کی بھی تحقیقات کرنے کا ذکر کرکے کمیشن پر اضافی بوجھ ڈال دیا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے اس سے اُن افراد کے بارے میں تحقیقات ہوں گی جنہوں نے مختلف ٹھیکوں میں کمیشن وصول کرنے کے علاوہ اربوں روپے کے قرضے بھی معاف کروائے اور ایسے افراد میں سے زیادہ تر افراد کا تعلق حزب مخالف کی جماعتوں سے ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے حالات میں کمیشن کے لیے جلد از جلد تحقیقات مکمل کرنا مشکل ہوگا۔

بشکریہ بی بی سی

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے