بنگلہ دیش: تان پورہ کے ماہر یونیورسٹی پروفیسر قتل

ڈھاکا: بنگلہ دیش کے شمال مغربی شہر راج شاہی میں نامعلوم حملہ آوروں نے ایک یونیورسٹی پروفیسر کو خنجر کے وار کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا۔

خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ نے پولیس کے حوالے سے بتایا ہے کہ شہر کی سرکاری یونیورسٹی میں پڑھانے والے انگریزی کے پروفیسر 58 سالہ رضا الکریم صدیقی پر عقب سے اُس وقت حملہ کیا گیا جب وہ اپنے گھر سے بس اسٹاپ کی طرف جار رہے تھے۔

راج شاہی کی میٹروپولیٹن پولیس کے کمشنر محمد شمس الدین نے اے ایف پی کو بتایا، ‘پروفیسر کی گردن پر خنجر سے کم از کم 3 مرتبہ وار کیا گیا، جس سے وہ 70 سے 80 فیصد کٹ گئی، حملے کی نوعیت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شدت پسند گروپوں کی کارروائی ہے’۔

[pullquote]بنگلہ دیش میں سیکولر بلاگر قتل
[/pullquote]

ڈپٹی کمشنر پولیس ناہید الاسلام نے اے ایف پی کو بتایا کہ پروفیسر صدیقی مختلف ثقافتی اور موسیقی کے پروگرام منعقد کروانے میں پیش پیش رہتے تھے جبکہ انھوں نے بگمارا میں موسیقی کا ایک اسکول بھی قائم کیا جو ایک کالعدم اسلامی گروپ جمیعت المجاہدین بنگلہ دیش (جے ایم بی) کا گڑھ تھا۔

ناہید الااسلام نے بتایا کہ یہ واقعہ بھی حالیہ دنوں میں بنگلہ دیش میں سیکولر بلاگرز کے قتل جیسا ہی معلوم ہوتا ہے۔

پولیس کے مطابق اس طرح کے واقعات میں نامعلوم حملہ آور زیادہ تر خنجر یا چھرے کی مدد سے لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں۔

[pullquote]بنگلہ دیش میں امریکی بلاگر قتل
[/pullquote]

مقتول پروفیسر کے ایک ساتھی پرفیسر سخاوت حسین نے بتایا کہ پروفیسر صدیقی تان پورہ کے ماہر تھے اور انھوں نے بے شمار نظمیں اور مختصر کہانیاں بھی لکھیں۔

حسین نے بتایا کہ وہ ایک ثقافتی گروپ کے سربراہ اور ایک ادبی میگزین کے ایڈیٹر بھی تھے لیکن انھوں نے کبھی بھی عوامی مقامات پر مذہب کے خلاف نہیں بولا اورنہ ہی کبھی کچھ تحریر کیا۔

پولیس کے مطابق صدیقی، راج شاہی یونیورسٹی کے چوتھے پروفیسر ہیں، جنھیں قتل کیا گیا۔

رواں برس فروی میں ایک عدالت نے محمد یونس نامی پروفیسرکو قتل کرنے والے 2 شدت پسندوں کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

[pullquote]بنگلہ دیش:اسلام چھوڑکرعیسائی ہونے والا شخص قتل
[/pullquote]

اس سے قبل جنوبی ایشیا میں القاعدہ کی بنگلہ دیشی برانچ انصار السلام نے رواں ماہ 26 سالہ قانون کے طالب علم نظام الدین صمد کے قتل کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

بنگلہ دیشی حکام مسلسل اس بات سے انکار کرتے آئے ہیں کہ القاعدہ یا داعش کا ملک میں کوئی وجود نہیں ہے، لکن حال ہی میں ان تنظیموں کی جانب سے اقلیتیوں اور غیر ملکیوں کے قتل کی ذمہ داری قبول کی گئی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے