وزیراعظم کا خطاب "میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا”

وزیر اعظم نواز شریف نے قوم سے خطاب کر کے پانامہ لیکس کے حوالے سے سپریم کورٹ سے تحقیقات کروانے کا اپوزیشن کا مطالبہ مان لیا. اس خطاب کی خاص بات نواز شریف کی باڈی لینگویج تھی.نواز شریف نے دوران خطاب نہ صرف عمران خان کو آڑے ہاتھوں لیا بلکہ پس پشت قوتوں یعنی دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ کو بھی واضح طور پر پیغام دے دیا.یہ وہی پیغام تھا جو 1993 میں انہوں نے مقتدر قوتوں کو مخاطب کر کے دیا تھا کہ ” میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا”.

ایک طویل مدت بعد اس خطاب میں نواز شریف نے جارحانہ لہجہ اپناتے ہوئے مشرف اور ماروائے آئین اقدامات کے حساب کا ذکر کر کے پس پشت قوتوں کو بتا دیا کہ وہ میدان نہیں چھوڑیں گے. یہ ایک انتہائی اہم نوعیت کی ڈیویلوپمنٹ ہے جو سول ملٹری تعلقات کی کشیدگی اور پانامہ لیکس کے تناظر میں پس پشت قوتوں کی سازشوں کا جواب بھی ہے.عمران خان کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے نواز شریف نے عمران خان کے خلاف امریکی عدالت کا فیصلہ جو کہ ان کی اولاد ٹیرن وائٹ سے متعلق تھا اس کا زکر بھی کر ڈالا.

اس خطاب نے نواز شریف کو ایک بار پھر 1993 والی پوزیشن پر لا کھڑا کیا ہے. وہی پوزیشن جہاں نواز شریف پہلی بار ایسٹیبلیشمنٹ کی چھتری سے نکل کر اپنے دم پر ایک قومی رہنما بنے تھے.اس تازہ ترین خطاب میں بھی ایسٹیبلیشمنٹ کو یہ یاد دہانی کروا دی گئی کہ نواز شریف کو بیساکھیاں درکار نہیں ہیں اور اب غالبا اس بساط کے فیصلہ کن وار کی گھڑی آن پہنچی ہے.غالبا پہلی مرتبہ وطن واپسی کے بعد نواز شریف نے کھل کر اپنے سیاسی مخالفین اور ایسٹیبلیشمنٹ کو کھل کر تنقید کا نشانہ بنایا ہے. اس خطاب کو اگر موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اپوزیشن اور عمران خان اب احتجاج اور جلاو گھیراو کی سیاست کا جواز کھو بیٹھے ہیں کیونکہ جو مطالبہ عمران خان اور دیگر جماعتوں کا تھا نواز شریف نے اس پر من و عن عمل کرتے ہوئے سپریم کورٹ کو جوڈیشل کمیشن بنانے کیلئے خط لکھ دیا. اس کے بعد بھی اگر عمران خان احتجاج کی سیاست کو ہوس اقتدار کیلئے استعمال کرنا چاہیں تو پھر غالبا اس بار حکمران جماعت خاموشی سے نہیں بیٹھے گی. یعنی ٹکراو کی سیاست جس سے نواز شریف اجتناب کرنا چاہ رہے تھے اس کے پھر سے دوبارہ شروع ہونے کے امکانات مزید بڑھ جائیں گے.

حکمران جماعت کو اب ٹکراو کی سیاست سے ویسے بھی کوئی خطرہ نہیں.کیونکہ اس وقت اگر کسی بھی طریقے سے حکومت کا تختہ الٹا جائے تو نواز شریف اور انکی جماعت کے حق میں یہ بات جاتی ہے.پنجاب میں ووٹرز کے نزدیک نواز شریف ایک بار پھر مظلوم بن جائیں گے اور ان کا ووٹ بنک اسی طرح قائم و دائم رہے گا. ملکی سیاست میں اب تک نواز شریف نے انتہائی صبر و تحمل کا مظاهره کرتے ہوئے پس پشت قوتوں اور انکے مہروں کا سامنا کیا.لیکن اب قرائن بتاتے ہیں کہ نواز شریف نے فرنٹ فٹ پر کھیلنے کا ارادہ کر لیا ہے. پس پشت قوتیں اور ان کے مہرےملکی الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے جن حوالدار اینکرز کو استعمال کر کے ملک میں ایک ہیجانی کیفیت طاری کرتے ہیں اور آئے روز حکومت کے جانے کی تاریخوں سے لے کر قیامت تک کے آنے کی نشانیاں اور وجہ بھی حکمران جماعت کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ان میڈیا اینکرز اور مالکان کے حوالے سے پانامک لیکس کی طرز کا ایک بڑا سکینڈل اگلے کچھ عرصے میں آنے والا ہے جو بہت سے نام نہاد شرفا کے کالے دھن اور بنک اکاؤنٹس کے بارے میں تفضیلات پر مبنی ہو گا. ادھر پانامہ لیکس کا دوسرا دور ابھی مئی میں پھر شروع ہونا ہے اور اس میں پس پشت قوتوں کے اپنوں کے نام بھی آنے کی اطلاعات ہیں.یعنی یہ سال انکشافات اور لیکس کا سال کہا جائے تو بیجا نہ ہو گا.

خیر یہ انکشافات کیا گل کھلاتے ہیں اس کا تفضیلی زکر پھر سہی.البتہ اس خطاب کے بعد اب دلچسپ صورتحال پیدا ہو گئی ہے.عمران خان سراج الحق اور ہمنوا احتجاج اب کس نکتے پر کریں گے یہ اہم سوال ہے. ان حضرات نے غالبا صرف فرانزک آڈٹ کا نام سنا ہوا ہے اس کی تفضیلات سے واقف نہیں وگرنہ یہ حضرات کبھی بھی حکومت سے جوڈیشل کمیشن بنانے کا احمقانہ مطالبہ نہ کرتے.دنیا پھر میں وائٹ کالر اور کارپوریٹ جرائم کے اصل کرداروں تک پہنچنا تقریبا ناممکن ہوتا ہے.اور ہمارے ہاں تو بدقسمتی سے ایسا کوئی میکینزم ابھی تک دریافت بھی نہیں ہوا جو ایسے جرائم کے بارے میں سراغ لگا سکے. یعنی نواز شریف اس وار سے بھی اب باآسانی بچ نکلنے کی پوزیشن میں آ گئے ہیں.اور اپنے سیاسی بقا کی ضمانت کے بعد اب ان کا ارادہ پس پشت قوتوں اور سیاسی مخالفین پر وار کرنے کا ہے.سیاست بے رحم کھیل ہے اس میں حریف کو مصروف نہ رکھا جائے تو پھر حریف آپ کو اپنی جان بچانے میں مصروف کر دیتا ہے.غالبا نواز شریف سےـ بہتر اس بات کو کوئی اور ملکی سیاستدان نہیں سمجھ سکتا. یہی وجہ ہے کہ نواز شریف نے قوم سے خطاب کے دوران سیاسی مخالفین تک یہ پیغام پہنچا دیا کہ اب حساب کتاب سب کا ہو گا. یہ وہ پوزیشن ہے جو نواز شریف کو پہلے دن سے اختیار کرنی چائیے تھی لیکن دیر آئے درست آیے کے مصداق ابھی بھی زیادہ نقصان نہیں ہوا.

اگر نواز شریف لگے ہاتھوں ایک ایسا کمیشن تشکیل دیں جو معزز ججوں اور سول سوسائٹی کے معتبر ناموں پر مشتمل ہو اور جو سن 47 سے لیکر آج تک کی ملکی تاریخ کے تمام مرکزی بیوروکریٹس آمر جرنیل ججز صحافی اور سیاستدانوں پر لگے الزامات کی آزادانہ تحقیقات کر کے ایک مرتبہ اس ملک کے سیاہ ادواروں اور ان کے محرکات سمیت مرکزی کرداروں پر فرد جرم عائد کر سکے تو اس سے بڑھ کر اور کوئی خدمت جمہوریت اور پاکستان کی نہیں ہو سکتی.نواز شریف چائیں تو وہ یہ کر سکتے ہیں کیونکہ جس صف بندی کا اعلان انہوں نے اس خطاب میں کیا ہے اس کے بعد اب ان کے لیئے بھی تخت یا تختے کی آپشن باقی بچی ہے وہ یہ لڑائی جیت گیے تو اگلے انتخابات کا معرکہ بھی نون لیگ کے نام رہے گا بصورت دیگر بھٹو کی مانند تختہ دار ان کا استقبال کرے گا. جس سوچ اور بیانیے کو نواز شریف نے چیلنج کیا ہے اس کو شکست دینے کیلئے یہ قدم اٹھانا ہی ان کی اپنی بقا کا ضامن بھی ہے.

1993 کی جو تقریر آج پھر دہرائی گئی اس نے آج بینظیر بھٹو کی یاد بھی تازہ کروا دی.اس دور میں جب نواز شریف نے قوم سے خطاب کر کے پس پشت قوتوں اور انکے مہرے غلام اسحاق خان کو یہ پیغام دیا تھا کہ میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا اور کھل کر اپنے جزبات کا اظہار عوام سے کیا تھا تو محترمہ بینظیر نے اس تقریر کے بعد نواز شریف سے ان دنوں سیاسی رنجش کی انتہا کے باوجود اپنے ساتھیوں کو یہ کہا تھا کہ آج نواز شریف لیڈر بن گیا ہے. آج 2016 میں ایک بار پھر وہی نواز شریف وزیر اعظم ہے اور آج بھی اس نے پس پشت قوتوں کو یہی پیغام دیا ہے کہ میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا.پچھلی مرتبہ ڈکٹیشن نہ لینے کے جرم میں نواز شریف کو جانا پڑا تھا اس دفعہ وہ رہتے ہیں یا جاتے ہیں یہ تو وقت ہی طے کرے گا.لیکن ایک بات تو طے ہے کہ نواز شریف پچھلی بار ہار کر بھی جیت گئے تھے اقتدار سے محروم کیئے گئے لیکن عوام کے دلوں سے نہ نکالے جا سکے.

بھٹو کو مار کر بھی پس پشت قوتیں سندھ میں آج تک کچھ نہ حاصل کر پائیں اور پنجاب میں بھی اب وہی صورتحال ہے. جہاں نواز شریف اب اینٹی ایسٹیبلیشمنٹ رہنما کے طور پر جانے جاتے ہیں. 1993 اور 1999میں نواز شریف نہ تو ایک منظم اور عوامی جماعت کے سربراہ تھے اور نہ ہی لبرل اور جمہوریت پسند طاقتوں کے پسندیدہ.اب صورتحال مختلف ہے. نواز شریف واحد وفاقی رہنما ہیں جو عالمی سطح پر بھی ایک اہم رہنما سمجھے جاتے ہیں اور لبرل اور جمہوریت پسندوں کے ہاں بھی پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں.1993 سے شروع ہونے والے اس ڈکٹیشن نہ لینے کے سفر کا انجام اب شاید قریب ہے.اور دعا ہے کہ اب کی بار جمہوریت کے اجالے ہی وطن عزیز کا مقدر بنیں.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے