مذہب کی تو بنیاد ہی پیش گوئی پر ہے

اسلام کو جدید سیکولر، لبرل اور جمہوری چوکھٹے میں ٹھونسنے کا فریضہ جو مذہبی رہنما اور ان کے پیروکار دانشور، محقق اور کالم نگار ادا کر رہے ہیں ان بیچاروں کے لیے مشکل یہ آن پڑی ہے کہ وہ عملی طور پر زندگی کو علت و معلول Cause & Effect) کی دنیا سمجھتے ہیں۔ ہر وہ چیز جو انسانی عقل کے احاطے میں نہ آئے، جسے انسانی حواس محسوس نہ کر پائیں یا پھر جو سائنسی تحقیق کے دائروں سے دور ہو اسے مافوق الفطرت کہیں گے یا کوئی دیومالائی قصہ، لیکن دوسری جانب ان کی اٹھان، پرواز اور علمی بنیاد مذہبی ہے جو انھیں چین نہیں لینے دیتی۔

اسلام کے یہ جدید مفکرین جب کبھی موجودہ سیکولر جمہوری اور لبرل طرز زندگی کا سوچتے ہیں تو وہ انھیں انسانی تہذیب کی معراج نظر آتی ہے، یوں وہ کوشش کرتے ہیں کہ اسے کسی نہ کسی طرح مذہب‘ خصوصاً اسلام سے جائز ہونے کا سرٹیفکیٹ ضرور لے دیں۔ لیکن ان کے نزدیک سب سے بڑی رکاوٹ اسلام کی وہ علمی بنیاد ہے جسے اس کے ماننے والے علماء نے کبھی اصل سے ہٹنے نہیں دیا۔ اس علمی بنیاد کے دو پہلو ہیں۔ ایک وہ جو بظاہر دنیا کے معمولات سے متعلق ہے اور دوسرا وہ جو انسان کی آنکھ سے اوجھل ہے اور آنے والے وقت کی خبر ہے، یعنی پیش گوئی۔ اسلام، انسانی تہذیب، تمدن، معاشرت، سیاست اور معیشت کی بنیاد ہی پیش گوئی پر رکھتا ہے۔

یہ پیش گوئی سارے اسلامی اخلاقی نظام کی بنیاد ہے کہ ہر کسی نے روز حشر اپنے اللہ کے حضور پیش ہونا ہے اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ اسی اللہ نے جہاں اللہ، رسول، فرشتوں، کتابوں اور غیب پر ایمان لانے کو کہا ہے۔ وہیں آخرت پر ’’یقین‘‘ لانے کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دو اہم صفات بھی اسی پیش گوئی سے خاص ہیں۔ بشیر یعنی بشارت دینے والا اور نذیر یعنی ڈرانے والا۔ قرآن پاک کے صفحات پر بار بار آپ کو تمام اعمال کے لیے روز حشر جواب دینے اور نیک عمل پر جزا اور گناہ پر سزا کا ذکر ملتا ہے۔

اسلامی معاشرے کا سارا دارومدار اسی پیش گوئی پر چلتا ہے۔ اسی لیے اسلام کی تاریخ میں زنا کے جرم میں سنگسار ہونے والے چارگواہوں کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے اعتراف جرم کی وجہ سے حد کے مستحق ٹھہرے۔ وہ یہ اعتراف جرم اس لیے کرتے تھے کہ انھیں روز محشر پیش ہونے کا یقین تھا اور وہ اپنے گناہ کی سزا اس دنیا میں ہی بھگتنا چاہتے تھے۔

میرے ان سیکولر نما مذہبی دوستوں کا اس بات پر کامل یقین ہے کہ موجودہ انسان نے جزا و سزا اور طرز حکمرانی کا ایک ایسا سسٹم یا نظام بنا لیا ہے جو کامیاب ہے اور اس کو مکمل طور پر نافذ کرنے پر ہی معاشرہ بہتر ہو سکتا ہے۔ انھیں اندازہ نہیں کہ دنیا کا بہترین لیگل سسٹم بھی اس دنیا میں انسان کو سزا اور جزا دینے میں ناکام ہے۔ یہ تو عمومی اعتراض ہوتا ہی ہے کہ سو لوگوں کے قاتل کو بس صرف ایک پھانسی۔ یہ تو انصاف نہ ہوا۔ لیکن ذرا معاشرتی اقدار کے پہلو کو دیکھیں تو اس پیش گوئی پر یقین ہی معاشرے کی بنیاد بن جاتا ہے کہ ہر عمل پر جزا اور سزا تو اصل میں آخرت میں ہو گی۔

آپ اپنے والدین کو اولڈ ایج ہوم میں چھوڑ آتے ہو حالانکہ آپ صاحب حیثیت بھی ہو، کیا دنیا کے کسی ملک کا قانون آپ کو سزا کا مستحق قرار دیتا ہے۔ آپ پیٹ بھر کے کھانا کھاتے ہو، آپ کا فریج انواع و اقسام کے کھانوں سے بھرا ہوا ہے۔ لیکن آپ کے پڑوس میں کوئی شخص بھوک کی وجہ سے خودکشی کر لیتا ہے۔ کیا دنیا کا کوئی قانون آپ پر قتل کا مقدمہ درج کرتا ہے۔ لیکن ان تمام اعمال کے مقدمے روز قیامت پیش ہونے ہیں اور ان سب کی سزا بھی مقرر ہے جو صرف اللہ جانتا ہے۔ غرض اگر مذہب کی بنیاد یعنی پیش گوئی کو مذہب سے خارج کر دیا جائے تو اس کی ساری عمارت دھڑام سے گر جاتی ہے۔

میرے یہ کارِ تجدید کے راہی اور اسلام کے اصولوں کو جدید سیکولر، جمہوری اور لبرل تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کا فریضہ انجام دینے والے اللہ اور اس کے رسول کو اتنی تو اجازت دیتے ہیں کہ وہ روز قیامت کے بارے میں پیش گوئی فرما دیں۔ لیکن دنیاوی زندگی کے بارے میں وہ اگر کوئی پیش گوئی کرنا چاہیں تو یہ ان سے یہ منصب فوراً چھین لیتے ہیں۔
اس لیے کہ ان کے نزدیک وہ قرآنی آیات یا احادیث جو کسی قوم کی علامتوں پر عذاب کی نشاندہی کرتی ہیں اور خصوصاً قرب قیامت کی علامتیں جن میں اخلاقی، معاشرتی اور دین سے متعلق بے عملی کو اللہ کے عذابوں کی وجہ بتایا گیا ہے، جن میں قیامت سے پہلے ایک بہت بڑی جنگ ملحمۃ الکبریٰ کا ذکر بھی ہے، ان کے نزدیک یہ سب پیش گوئیاں‘ مسلمان قوم کو عقل و آگہی اور تگ و دو کے میدان سے دور لے جاتی ہیں اور وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں اور کچھ نہیں کرتے، بس اللہ کی نصرت یا پھر اس کے عذاب کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔

میرے ان سیکولر‘ لبرل ازم سے مرعوب دانشوروں سے تو یہودی اپنی کتابوں اور اپنے صحیفوں پر زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ سائنس اور ادب میں ترقی انھوں نے کی۔ موجودہ دور کے نابغے فزکس میں آئن سٹائن، معاشیات میں کارل مارکس اور نفسیات میں فرائیڈ نے اس صدی کے علم کے رخ متعین کیے۔ یہ سب یہودی تھے۔ لیکن یہ پوری قوم بحیثیت مجموعی ایک پیش گوئی پر ایمان رکھتی ہے کہ ایک دن ان کا مسیحا آئے گا اور وہ یروشلم میں ایسی حکومت قائم کرے گا جو پوری دنیا پر غالب ہو گی۔

یہ یہودی پیرس، لندن، برلن، نیویارک، لاس اینجلس جیسے ترقی یافتہ شہروں میں اپنے وسیع کاروبار اور عالیشان گھر چھوڑ کر 1920ء کے آس پاس ایک ایسے خطے میں آباد ہونا شروع ہوئے جو یروشلم کے ساتھ ایک صحرا تھا۔ نہ وہاں پانی ملتا تھا اور نہ سبزہ۔ عرب ان کی جان کے دشمن تھے۔ وہ آباد ہوتے گئے، پھر 1948ء میں انھوں نے اپنی ریاست کا اعلان کر دیا۔ایک ایسی ریاست جس کا مقصد یعنی یروشلم پر قبضہ اور آخری زمانے میں مسلمانوں سے بڑی لڑائی کے لیے تیاری کے لیے انھوں نے 1967ء میں جنگ کی اور آج یروشلم ان کے قبضے میں ہے۔

یہ تمام عظیم سائنس دان اور عالم، دنیا کے بڑے بڑے سرمایہ دار اسرائیل میں کوئی سائنسی ترقی یا تمدنی انقلاب کے لیے جمع نہیں ہوئے بلکہ ایک عالمی جنگ کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں‘ جس کی پیش گوئی ان کے صحیفے کرتے ہیں۔ ان دانشوروں سے تو تعلیم یافتہ اور مہذب امیر عیسائی بہتر ہیں جو موجودہ دور کے ان ٹیلی وینجلسٹوں سے اس قدر متاثر ہیں کہ وہاں ڈونلڈ ٹرمپ ایک مضبوط مسلم دشمن امریکی صدارتی امیدوار بن کر ابھر رہا ہے۔ جو اسرائیل کی اس وجہ سے حمایت کرتے ہیں کہ جب تک ہیکل سلیمانی تعمیر نہیں ہو گا حضرت عیسیٰ واپس دنیا میں نہیں آئیں گے اور اسے تباہ کریں گے۔

اس لیے اسے جلد تعمیر ہونے میں مدد کی جائے۔ یہ سب مسلمانوں کے خلاف اس جنگ میں اس پیش گوئی پر یقین رکھتے ہوئے کر رہے ہیں‘ یہ دونوں آج کے مسلمانوں سے زیادہ روشن خیال‘ پڑھے لکھے‘ ٹیکنالوجی کے ماہر ہیں‘ لیکن وہ یہ جنگ ہمارے دروازے پر لے آئے ہیں اور صرف اپنے مذہب کی پیش گوئی کی بنیاد پر۔ لیکن اگر ہم میں سے کوئی یہ کہتا ہے کہ سیدالانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم یہودیوں سے جنگ کرو گے یہاں تک کہ اگر کوئی یہودی کسی پتھر کے پیچھے چھپا ہو گا تو وہ پتھر بول کر کہے گا‘ اللہ کے بندے میرے پیچھے یہودی چھپا ہے۔‘‘ (بخاری)۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے صحابہ تو ان پیشین گوئیوں پر اس قدر ایمان رکھتے تھے کہ مسلم شریف میں درج نواس بن سمعان کی روایت کردہ وہ طویل حدیث جس میں صحابہؓ نے رسول اللہ ؐ سے فرمایا: کہ ہمیں تو یوں لگتا ہے دجال کھجوروں کے جھنڈ کے پیچھے چھپا ہوا ہے یا پھر تمیم داری کی وہ حدیث جس میں وہ ایک لمبے بحری سفر پر نکلے اور ایک جزیرے میں انھوں نے غار میں زنجیروں میں جکڑے ہوئے دجال سے ملاقات کی۔ کیا رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے تمام صحابہ کرام کو جمع کر کے اس سارے قصے کو نہیں سنوایا تھا اور کیا اس کی تصدیق نہیں کی تھی۔

لیکن ان باتوں کو ماننے سے یہ میرے دوست غیر سائنسی اور غیرعقلی کہلوائیں گے۔ اسی لیے وہ اس حدیث کو بھی زیر بحث نہیں لاتے۔جس میں آپ نے فرمایا: ’’میرے بعد نبوت میں سے مبشرات کے علاوہ کچھ باقی نہیں بچا‘ سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں پوچھا گیا مبشرات کیا ہیں‘ فرمایا سچے خواب ۔(بخاری)۔ آپ نے فرمایا: سچے خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہیں ہیں۔ (ترمذی)۔ انھیں کوئی کہے کہ اللہ کے رسول نے فرمایا: ’’مومن کی فراست سے ڈرو‘ وہ اللہ کے نور سے دیکھ رہا ہوتا ہے۔ (ترمذی)‘ تو یہ کہہ کر بات بدل دیتے ہیں کہ ان احادیث کی صحت اور رجال پر بہت اختلاف ہے اور ویسے بھی ہمارے ایمان کا ان کے ساتھ تعلق کیا ہے۔

کس قدر ظالم ہیں یہ لوگ کہ دشمن اپنے مذاہب کی پیش گوئی پر یقین کرتے ہوئے آپ کے دروازے پر آ بیٹھا ہے اور اس لمحے کا انتظار کر رہا ہے کہ کب وہ وقت آئے اور وہ ہمیں نیست و نابود کر دے اور آپ کو کوئی اہل نظر جو اللہ کے نور سے دیکھتا ہے اور مبشرات کا امین ہے رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی پیشن گوئیاں یاد کرائے تو آپ فرماتے ہیں ہمارا سسٹم مضبوط ہو چکا ہے۔ ہم ترقی کی شاہراہ پر چل پڑے ہیں، جمہوریت مستحکم ہو چکی، کیا اللہ نے ایسے ہی دعوؤں کا ذکر عاد و ثمود اور مدائن صالح کی اقوام کے بارے میں نہیں کیا، کہ وہ سمجھتے تھے ہم بہت مضبوط اور مستحکم مکانوں میں ہیں۔ وہ بھی بے خبر تھے اور عذاب نے انھیں آن دبوچا اور یہ دانشور بھی میری قوم کو بے خبر رکھنا چاہتے ہیں۔ صرف اس لیے کہ یہ دنیا کے معاملات میں اللہ اور اس کے رسول کو دو اور دو چار اور علت و معمول پر رکھنا چاہتے ہیں۔ انھیں علم ہی نہیں کہ طوفان ان کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ نہ ان کی آنکھیں ان طوفانوں کو دیکھ پاتی ہیں نہ کان ان کے شور سے آشنا ہوتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے